اختلاف کے ساتھ اعتراف
مولانا حسین احمد مدنی (۱۹۵۷ - ۱۸۷۹) سیاسی مسلک کے اعتبار سے انڈین نیشنل کانگریس کے حامی تھے۔ مولانا اشرف علی تھانوی (۱۹۴۳ - ۱۸۶۳) کا مسلک اس معاملہ میں مختلف تھا۔ وہ کانگریس کی حمایت کو مسلمانوں کے لیے درست نہیں سمجھتے تھے۔ اس اختلاف کے باوجود دونوں بزرگوں میں نہایت اچھے تعلقات تھے۔ دونوں ایک دوسرے کی قدر کرتے تھے۔
ایک شخص کا ذہنی سانچہ اگر یہ ہو کہ موقف صرف دو ہوا کرتے ہیں۔ یا کامل موافقت یا کامل مخالفت، تو وہ دونوں بزرگوں کے اس طریقہ کو" زمانہ شناسی " پر محمول کرے گا۔ وہ کہے گا کہ دونوں صاحبان اگر چہ ایک دوسرے کے مخالف تھے، مگر ذاتی مفاد کی بنا پر وہ ایک دوسرے کے بارے میں اچھے الفاظ بولتے رہے۔
مگر جو شخص اسلام کی روح اور مومنانہ مزاج کو جانتا ہو وہ اس کو وسعتِ نظری قرار دےگا۔ وہ کہے گا کہ دونوں صاحبان مخلص تھے۔ دونوں کا دین ایک تھا۔ البتہ بعض مسائل میں دونوں کی رائے ایک دوسرے سے الگ ہوگئی تھی۔ اور اس قسم کا اختلاف انسانوں کے درمیان ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ ہر دور کے مومنین صالحین میں اس قسم کا اختلاف پایا جاتا تھا اور ہمیشہ پایا جاتا رہے گا۔ یہ اختلاف بذات خود کوئی غیر محمود چیز نہیں۔ وہ غیر محمود صرف اس وقت بنتا ہے جب کہ اختلاف صرف اختلاف نہ رہے، وہ نفرت اور عناد تک جا پہونچے۔
اصحاب رسول کے درمیان بہت سے امور میں اختلاف تھا۔ اسی طرح فقہاء اور علماء میں اور مفسرین قرآن اور شارحین حدیث میں ہزاروں اختلاف پائے جاتے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے اختلافات کا برملااظہار کیا۔ اس کے باوجود ایسا ہوا کہ انھوں نے ایک دوسرے کا اعتراف کیا۔ وہ ہمیشہ ایک دوسرےکی قدر دانی کرتے رہے۔ اس دو طرفہ عمل کا سبب زمانہ شناسی نہیں تھی بلکہ دین شناسی تھی۔ ان کا یہ مسلک مفادِ دنیا کی بنا پر نہ تھا بلکہ خوف ِآخرت کی بنا پر تھا۔
اختلاف کے ساتھ اعتراف ایک آدمی کے مومنِ خاشع ہونے کی علامت ہے۔ لیکن بے خبر لوگوں کے لیے وہ مفاد پرستی اور زمانہ شناسی کے ہم معنی بن جاتا ہے۔