نظر انداز کر و
سرپرسی کاکس (Sir Percy Cox) ایک انگریز تھا۔ وہ ۱۸۶۴ میں پیدا ہوا، اور ۱۹۳۷ میں اس کی وفات ہوئی۔ وہ ۱۸۸۴ سے ۱۸۹۰ تک برٹش فوجی افسر کی حیثیت سے انڈیا میں رہا۔ ہم پہلی عالمی جنگ کے بعد عراق برٹش مینڈیٹ کے تحت آگیا۔ اس کے بعد کا کس کو ۱۹۲۰ میں عراق بھیجا گیا۔ وہ وہاں برٹش ہائی کمشنر کی حیثیت سے ۱۹۲۳ تک مقیم رہا۔
سرپرسی کا کس کا قیام بغداد میں تھا۔ ایک روز صبح کو وہ اپنی رہائش گاہ میں تھا کہ صبح کے وقت قریب کی مسجد سے آواز سنائی دینے لگی۔ یہ موذن کی آواز تھی جو فجر کی اذان پکار رہا تھا۔ کا کس کے لیے یہ ایک نئی آواز تھی جو اس نے اب تک نہیں سنی تھی۔ اس کو اندیشہ ہوا کہ یہ باغیوں کا کوئی گروہ تو نہیں ہے جو نعرہ لگا رہا ہے۔ اس نے اپنے آدمی کو بلا کر پوچھا کہ یہ کیسی آواز ہے۔ بتانے والے نے بتایا کہ یہ مسلمانوں کی اذان ہے۔ وہ روزانہ اپنی مسجد میں اسی طرح اذان پکارتے ہیں تاکہ لوگ اس کو سن کر مسجد میں نماز کے لیے آجائیں۔
سر پرسی کا کس نے سنجیدہ لہجہ میں پوچھا کہ اس سے ہمارے ایمپائر کو کوئی خطرہ تو نہیں۔ بتایا گیا کہ نہیں۔ اس نے جواب دیا : پھر انھیں چھوڑ دو، وہ جو کر رہے ہیں کرتے رہیں۔
میں کہوں گا کہ مسلمانوں کو یہی پالیسی سڑک کے نعروں کے بارے میں اختیار کر نا چاہیے۔ دوسرے فرقہ کے لوگ جلوس نکالتے ہیں۔ اس میں وہ "دل آزار نعرے "لگاتے ہیں۔ کوئی فرقہ پرست لیڈر پارک میں جلسہ کر کے "اشتعال انگیز" الفاظ بولتا ہے۔ اس سے مسلمان بھڑک کر کارروائی کرتے ہیں اور اس کے بعد فساد ہو جاتا ہے۔
ایسے مواقع پر مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ سوچیں کہ کیا یہ الفاظ ان کے لیے کوئی عملی خطرہ ہیں۔ کیا وہ انھیں کوئی جسمانی یا مادی نقصان پہونچار ہے ہیں۔ مسلمان جب اس طرح سوچیں گے تو انھیں معلوم ہوگا کہ اس قسم کے الفاظ ان کے لیے کوئی عملی خطرہ نہیں۔ یہ معلوم ہونے کے بعد انھیں چاہیے کہ سر کا کس کی طرح وہ کہہ دیں: پھر انھیں چھوڑ دو، وہ جو کچھ بولتے ہیں بولتے رہیں۔ ہم تو ان کو نظر انداز کر کے اپنا تعمیری کام جاری رکھیں گے۔