دو طریقے
تحریکیں، خواہ مذہبی ہوں یا غیر مذہبی، وہ ہمیشہ دو طریقے پر عمل کرتی ہیں۔ ایک تنظیم کی صورت میں، اور دوسرے اشاعتِ افکار کی صورت میں۔ اول الذکر تحریک کی مثال، موجودہ زمانے میں، الاخوان المسلمون اور انڈین نیشنل کانگریس ہے۔ یہ دونوں تحریکیں تنظیم کی صورت میں ظہور میں آئیں اور تنظیمی انداز میں آگے بڑھیں۔
دوسرے انداز کی تحریکوں کی مثال اس سے بھی زیادہ عام ہے۔ اور وہ قدیم اور جدید دونوں زمانوں میں پائی جاتی ہے۔ قدیم زمانے میں اس کی ایک مثال حضرت مسیح علیہ السلام کی دینی تحریک ہے۔ یہ ایک معلوم واقعہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے نہ کوئی جماعت بنائی اور نہ کوئی تنظیم قائم کی۔ وہ صرف اپنی تعلیم کی اشاعت میں مشغول رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا "رفع " فرمالیا۔ مگر آپ کے بعد آپ کے شاگرد اور متاثرین اٹھے۔ انھوں نے آپ کے مشن کو اگرچہ محرف صورت میں اتنے بڑے پیمانہ پر پھیلایا کہ آج حضرت مسیح کے ماننے والوں کی تعداد تمام مذاہب میں سب سے زیادہ ہے۔ اسی طرح جدید یورپ میں ڈیموکریسی اور کمیونزم کی تحریکیں اٹھیں۔ ان تحریکوں کے ابتدائی علم برداروں نے کبھی کوئی تنظیم نہیں بنائی۔ وہ صرف اپنے نظریہ کے حق میں لٹریچر تیار کر کے مر گئے۔ مگر ان کے بعد ان کے ہم خیال افراد نے ان تحریکوں کو اتنے بڑے پیمانہ پر پھیلایا کہ یہی تحر یکیں عملاً ساری دنیا پر چھا گئیں۔
حقیقت یہ ہے کہ تحریکوں کی اصل طاقت ان کے افکار ہیں۔ تحریکیں اپنے افکار کے زور پر اٹھتی ہیں اور اپنے افکار کے زور پر پھیلتی ہیں۔ کسی تحریک کا محرکِ اول اگر اپنا کوئی تنظیمی ڈھانچہ نہ بنا سکے، وہ اپنے افکار کی تخلیق میں بیج کی مانند بظاہر فناہو جائے تب بھی اگر اس کے افکار میں طاقت ہے تو وہ درخت کی مانند ابھرے گا اور آندھی اور طوفان کی طرح دنیا میں پھیل جائے گا۔
کسی تحریک کے مستقبل کے لیے اصل اہمیت کی چیز کوئی خارجی ڈھانچہ نہیں بلکہ اس کی اپنی فکری طاقت ہے۔ اگر تحریک کے فکر میں یہ طاقت ہے کہ وہ انسانوں کے ذہن میں انقلاب پیدا کر دے، وہ لوگوں کی ذہنی صلاحیت کو ابھار کر انھیں تخلیقی انسان بنا دے تو یہی واقعہ اس بات کی ضمانت ہے کہ تحریک ہر موڑ کا مقابلہ کرتے ہوئے زندہ رہے گی۔ ایسی تحریک وہ افراد پیدا کرتی ہے جو خود اپنی ذات میں جماعت ہوں، جو خود پروگراموں کی تخلیق کریں۔ پھر کون ہے جو ایسی تحریک کا راستہ روک سکے۔