غصہ نہ دلاؤ
۲۹ مئی ۱۹۹۰ کو دہلی کے اخبارات میں ایک سبق آموز خبر تھی۔ سدرشن پارک (موتی نگر) کی جھگیوں میں ایک شخص رہتا ہے۔ اس کا نام اننت رام ہے۔ عمر ۳۵ سال ہے۔ وہ شراب کا عادی ہے۔ اس کے پاس شراب کے لیے پیسہ نہیں تھا، اس نے اپنی بیوی سے پیسہ مانگا۔ بیوی نے شراب کے لیے پیسہ دینے سے انکار کر دیا۔ اس پر میاں اور بیوی میں تکرار ہوئی۔ اس کے بعد ٹائمس آف انڈیا (۲۹ مئی ۱۹۹۰) کے الفاظ میں، جو کچھ ہوا، وہ یہ تھا :
The accused, a habitual drunkard, was enraged when his wife refused to give him money he asked for. Giving way to his tantrums, he dashed his son against the floor, thus killing him then and there.
مجرم جو کہ شراب کا عادی ہے، اس وقت غصہ ہو گیا جب کہ اس کی بیوی نے اس کو وہ رقم نہ دی جو اس نے مانگی تھی۔ غصہ سے بے قابو ہو کر اس نے اپنے دو سال کے بچے (ارجن) کو لیا اور اس کو کئی بار اٹھا اٹھا کر زمین پر پٹکا۔ اس کے نتیجہ میں اس کا بچہ اسی وقت مرگیا۔
جب آدمی غصہ میں ہو تو اس وقت وہ شیطان کے قبضہ میں ہوتا ہے۔ اس وقت وہ کوئی بھی غیر انسانی حرکت کر سکتا ہے۔ حتی کہ خود اپنے بیٹے کو بے رحمانہ طور پر ہلاک کر سکتا ہے۔
یہ ایک ایسی کمزوری ہے جو ہر آدمی کے اندر موجود ہے۔ ایسی حالت میں سماج کے اندر محفوظ اور کامیاب زندگی حاصل کرنے کی صورت صرف یہ ہے کہ آدمی دوسروں کو غصہ دلانے سے بچے۔ وہ خوش تدبیری کے ذریعہ اس بات کی کوشش کرے کہ وہ دوسرے کو اس جذباتی حالت تک نہ پہونچنے دے جب کہ وہ شیطان کا معمول بن جائے اور اُس مجنونانہ کاروائی پر اتر آئے جس کی ایک مثال او پر کے واقعے میں نظر آتی ہے۔
غصہ اور انتقام کی برائی کا تعلق کسی قوم سے نہیں۔ وہ ہر انسان کے مزاج میں شامل ہے، خواہ وہ کسی بھی قوم یا کسی بھی ملک سے تعلق رکھتا ہو۔ غصہ اور انتقام کو انسانی مسئلہ کے طور پر لینا چاہیے نہ کہ فرقہ یا قوم کے مسئلہ کے طور پر۔