قرآن کا فلسفہ
غالباً ۱۹۷۰ کی بات ہے۔ میری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی جو ایک یونی ورسٹی میں فلسفہ کے پروفیسر تھے۔ اسلام کے فلسفیانہ فکر پر گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اسلام میں ثانوی عقلیت (secondary rationalism) ہے۔ اسلام میں ابتدائی عقلیت (primary rationalism) نہیں۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ اسلامی فکر کا آغاز وحی کے عقیدہ سے ہوتا ہے۔ آدمی پیشگی طور پر وحی کو مسلمہ صداقت مان کر سوچنا شروع کرتا ہے۔ جب کہ عام انسانی فلسفہ میں کوئی چیز پیشگی مسلمہ کے طور پر نہیں مانی جاتی۔ بلکہ تحقیق و جستجو کے بعد جو بات ثابت ہوتی ہے اس کو تسلیم کر لیا جاتا ہے۔
میں نے کہا کہ آپ کی بات بطور واقعہ درست ہے۔ مگر میں اس میں یہ اضافہ کروں گا کہ اس دنیا میں انسان کے لیے ثانوی عقلیت ہی ممکن ہے۔ ابتدائی عقلیت موجودہ دنیا میں انسان کے لیے قابل عمل اور قابل حصول نہیں۔
ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم کو صرف محدود عقلی صلاحیت حاصل ہے۔ حقائق کی کائنات لا محدود ہے اور اس کے مقابلہ میں انسان کی عقل انتہائی محدود۔ اس لیے ابتدائی عقلیت کا اصول ایک دل پسند اصول تو ہو سکتا ہے مگر اس دنیا میں وہ قابل عمل اصول نہیں۔
خالص فنی اعتبار سے اسلام کی عقلیت اگر چہ ثانوی عقلیت ہے مگر وہ عام معنوں میں ادعائیت(dogmatism) کی قسم کی کوئی چیز نہیں۔ اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ وہ حقیقت کے بارے میں ایک بیان(statement) دیتا ہے۔ اور اس کے بعد انسان سے یہ کہتا ہے کہ اس بیان کو واقعات معلومہ((known facts پر جانچ کر دیکھو۔ اگر تم پاؤ کہ یہ بیان واقعات معلومہ سے مطابقت رکھتا ہے توتم کو مان لینا چاہیے کہ یہ عین درست ہے۔
علم کیا ہے، اور انسان اس علم تک کس طرح پہنچتا ہے یا پہنچ سکتا ہے، اس سلسلہ میں جدید سائنس نے یہ اصول وضع کیا ہے کہ علم تک پہنچنے کے تین مرحلے ہیں :
ا۔ مشاہدہ (observation)
۲۔ مفروضہ (hypothesis)
۳۔ تصدیق (verification)
اس کا مطلب یہ ہے کہ اولاً آدمی کے سامنے کچھ واقعات آتے ہیں۔ ان واقعات کی توجیہہ کے لیے اس کے ذہن میں ایک مفروضہ قائم ہوتا ہے۔ اب وہ مزید مطالعہ شروع کرتا ہے۔ اگر مزید یا وسیع تر مطالعہ اس کے مفروضہ کی تصدیق کرے تو مان لیا جائے گا کہ وہ حقیقت ہے۔ اس آخری مرحلہ میں پہنچے کہ ابتدائی مفروضہ ثابت شدہ حقیقت (proved fact) بن جاتا ہے۔
اس کی ایک سادہ سی مثال یہ ہے کہ زمین پر قدیم انسان نے دیکھا کہ یہاں خشکی کے حصے بھی ہیں اور سمندر بھی۔ اس نے ابتدائی طور پر یہ مفروضہ قائم کیا کہ زمین پر آدھا حصہ خشکی ہے اور آدھا حصہ پانی۔ یہ مفروضہ یونانی فلسفیوں کے زمانے سے لے کر ابن خلدون تک قائم رہا۔
اس کے بعد خشکی اور سمندر کے سفروں سے آدمی نے یہ جانا کہ خشکی کے مقابلے میں پانی کا حصہ زمین پر زیادہ ہے۔ اس دوسرے مشاہدے سے پہلا مفروضہ رد ہو گیا۔ اب دوسرا مفروضہ یہ قائم ہوا کہ زمین پر پانی کا حصہ دو تہائی ہے اور خشکی کا حصہ ایک تہائی۔ اس کے بعد مزید ذرائع انسان کو حاصل ہوئے اور یہ ممکن ہوگیا کہ خشکی کے حصے اور پانی کے حصے کی باقاعدہ پیمائش کی جاسکے۔ چنانچہ با قاعدہ پیمائش سے معلوم ہوا کہ زمین کی سطح پر پانی کا حصہ ۷۱ فی صد ہے اور خشکی کا حصہ ۲۹ فی صد۔ بعد کے اس مشاہدہ نے دوسرے مفروضہ کی تصدیق کر دی اور وہ مسلّمہ حقیقت کے طور پر مان لیا گیا۔
قرآن کا فلسفہ بھی تقریباً یہی ہے۔ البتہ مقدمات کی ترتیب کے اعتبار سے دونوں میں معمولی فرق پایا جاتا ہے۔ قرآن کا فلسفہ یا قرآن کا طریقِ تفکیر معمولی فرق کے ساتھ یہ ہے کہ اس میں سب سے پہلے "مفروضہ" قائم ہوتا ہے۔ اس کے بعد" مشاہدہ " کی روشنی میں اس پر غور و فکر کیا جاتا ہے۔ اور پھر آخر میں "تصدیق"کا درجہ آتا ہے۔ یعنی قرآن کے دعویٰ (مفروضہ) کو لے کر اس پر غور کرنا۔ اور پھر غور و فکر کی سطح پر مفروضہ کی واقعیت ثابت ہونے کے بعد اس کو مسلّمہ حقیقت مان لینا۔ اسی آخری درجۂ معرفت کا نام قر آن کی اصطلاح میں ایمان ہے۔
گویا سائنس کے طریقِ علم کی ترتیب یہ ہے کہ مشاہدہ - مفروضہ - تصدیق۔ اس کے بجائے قرآن کےطریق علم کی ترتیب یہ ہے کہ مفروضہ - مشاہدہ - تصدیق:
Science: observation-hypothesis-verification.
Qur'an: hypothesis-observation-verification.
دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عام انسانی فلسفہ میں فکر کا آغاز تلاش (pursuit) سے ہوتا ہے۔ اس کے بر عکس قرآنی فلسفہ میں فکر کا آغاز یافت (finding) سے ہوتا ہے۔ قرآن ابتداءً یہ دعوی یا علمی زبان میں مفروضہ پیش کرتا ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے اور اس کائنات کا ایک انجام ہے۔ اس کے بعد قرآن تخلیقی دنیا کے مختلف شواہد (آیات) انسان کے سامنے لاتا ہے۔ اور انسان سےکہتا ہے کہ ان شواہد پر غور کرو اور دیکھو کہ کیا یہ شواہد قرآن کے دعوے کی تصدیق کرتے ہیں۔
اب تک کے تجربات بتاتے ہیں کہ کائنات کے تمام حقائق معلومہ((known factsقرآن کے بیان کی تصدیق کر رہے ہیں۔ کوئی بھی معلوم حقیقت ایسی نہیں جو قرآن کے بیان سے ٹکرانے والی ہویااس کو مشتبہ ثابت کرتی ہو۔
اس کی ایک مثال لیجیے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ میں یہ اعلان کیا کہ مجھ پرخدانے اپنے فرشتے کے ذریعہ وحی بھیجی ہے۔ اس پر مکہ کے لوگوں نے کہا کہ ہم تمہاری بات کو صرف اس وقت مانیں گے جب کہ ہم اپنی آنکھ سے دیکھیں کہ فرشتہ خدا کی وحی لے کر آسمان سے تمہارے پاس آرہا ہے۔ اس کے جواب میں قرآن میں کہا گیا کہ لوگ تم سے وحی کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دو کہ وحی خدا کے حکم سے ہے اور تم کو صرف تھوڑ ا علم دیا گیا ہے (بنی اسرائیل: ۸۵)
دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ تھا کہ مکہ کے لوگ پیغمبر اسلام کے دعوی رسالت پر براہِ راست دلیل مانگ رہے تھے۔ مگر قرآن نے یہ جواب دیا کہ تم اس معاملہ کو بالواسطہ دلیل یا استنباطی دلیل کے ذریعہ ہی سمجھ سکتے ہو۔ کیونکہ تم اپنی محدودیت کی وجہ سے اس معاملہ میں براہ راست دلیل کا تحمل نہیں کر سکتے۔
یہ معاملہ اسی طرح متناز عہ صورت میں تاریخ میں چلتا رہا۔ یہاں تک کہ ۱۹ ویں صدی میں سائنسی ذرائع کی دریافت کے بعد جدید مفکرین نے مزید یقین کے ساتھ یہ اعلان کر دیا کہ ہمیں کسی معاملہ میں بالواسطہ یا استنباطی استدلال پر قانع رہنے کی ضرورت نہیں۔ ہم جدید ذرائع کی مدد سے تمام امور پربراہ راست دلیل قائم کر سکتے ہیں۔
مگر بیسویں صدی کی تحقیقات نے آخری طور پر قرآن کے حق میں اپنا فیصلہ دے دیا۔ اس نے یہ ثابت کر دیا کہ انسان کی ذہنی محدودیت فیصلہ کن طور پر اس راہ میں حائل ہے کہ وہ کسی بھی حقیقت پربراہ راست دلیل قائم کر سکے۔ چنانچہ بیسویں صدی کے نصف آخر میں متفقہ طور پر مان لیا گیا کہ بالواسطہ یا استنباطی استدلال عین معقول استدلال (valid arguments) ہے، بشرطیکہ وہ ثابت شدہ مشاہدات پر مبنی ہو اور تمام متعلق مشاہدات کی زیادہ بہتر توجیہہ کرتا ہو۔
مثال کے طور پر نظریہ ٔارتقاء (Evolution theory) کو اسی بنا پر سائنس دانوں کے در میان عمومی قبولیت (general acceptance) کا درجہ حاصل ہو گیا تھا۔ حتی کہ کچھ لوگوں نے اس کو ثابت شدہ حقیقت (proved fact) کہنا شروع کر دیا۔ حالانکہ ارتقاء کا نظریہ اتنے لمبے ماضی سے تعلق رکھتا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کے عمل کا براہ راست مشاہدہ کیا جا سکے یا اس پر براہ راست دلیل قائم کی جائے۔ ارتقاء کا نظریہ تمام تر ایک استنباطی نظریہ ہے نہ کہ براہ راست مشاہدہ میں آنے والا نظریہ۔
نظریہ ٔارتقا کیا ہے۔ نظریۂ ارتقاء کا فارمولا چند لفظوں میں یہ ہے –––––– دوبارہ پیدائش، فرق اور فرق کا باقی رہنا :
Reproduction, Variation and Differential survival
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک حیوان کے یہاں توالد و تناسل سے بچے پیدا ہوئے۔ ان میں باہم فرق تھا۔ مثلاً کوئی چھوٹا تھا کوئی بڑا۔ بڑے بچے توالد و تناسل کے عمل کے تحت دوبارہ تھوڑا تھوڑا بڑے ہوتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ بکری کا بچہ لمبی مدت تک فرق جمع ہونے کے نتیجہ میں زرافہ بن گیا۔ ار تقاء پسند عالم ایک طرف بکری کے ڈھانچہ کو دیکھتا ہے اور دوسری طرف زرافہ کے ڈھانچے کو، اور پھر وہ فرض کر لیتا ہے کہ ان دونوں کے بیچ میں اور بہت سی نسلیں ہیں جو ان دونوں کو جوڑتی ہیں۔ گویا وہ دو چیزوں کی موجودگی سے تیسری چیز کی موجودگی کا قیاس کرتا ہے۔
اس سے قطع نظر کہ یہ نظریہ صحیح ہے یا غلط،منطقی اعتبار سے یہ استدلال سراسر استنباطی استدلال ہے۔ اسی طرح کے استنباطی استدلالات پر ان تمام نظریات کی بنیاد قائم ہے جن کو موجودہ زمانے میں سائنٹفک نظریات کہا جاتا ہے۔
سائنس کے حلقے میں جتنے بھی نظریات قائم کیے گئے ہیں وہ سب اسی طرح بالواسطہ استد لال پر مبنی ہیں۔ یہ نظریات اس وقت تک قائم رہتے ہیں جب تک کوئی نیا مشاہدہ سابقہ توجیہہ یااستنباط کو مشتبہ ثابت نہ کر دے۔
اسلامی عقائد پر منطقی استدلال کی نوعیت بھی عین یہی ہے۔ اگر کائناتی مشاہدات اسلامی عقائد کی تائید کرتے ہوں اور ان مشاہدات سے جائز طور پر ان کا استنباط ہو رہا ہو تو وہ عین جدید سائنسی منطق کے مطابق درست اور قابل تسلیم قرار پائیں گے۔ صرف اس بنا پر ان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ استنباطی استدلال پر مبنی ہیں۔ ایسا کرنے کے بعد صرف اسلامی عقائد ہی رد نہیں ہوں گے بلکہ خود سائنس کا پور اقلعہ بھی مکمل طور پر منہدم ہو جائے گا۔
قرآن میں ۱۴۰۰ سال پہلے یہ کہا گیا تھا کہ انسان کو صرف علم قلیل (بنی اسرائیل: ۸۵) دیا گیا ہے۔ موجودہ زمانے میں خالص سائنسی تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ انسانی ذہن کی کچھ ناگزیر محدودیتیں (limitations) ہیں اور ان محدودیتیوں کی وجہ سے انسان کے لیے صرف محدود علم تک پہنچنا ممکن ہے۔ چنانچہ جدید سائنسی منطق کا یہ کہنا ہے کہ ہم اپنی موجودہ صلاحیتوں کے ساتھ صرف قرینہ (probability) تک پہنچ سکتے ہیں۔ قرینے سے آگے ہمارے علم کی رسائی ممکن نہیں۔
جدید سائنس کا یہ موقف اسلام کی اس عقلیت کو برحق ثابت کرتا ہے جس کو ثانوی عقلیت کہا جاتا ہے۔ یہاں پہنچ کر سائنس کا موقف اور اسلام کا موقف دونوں ایک ہو جاتے ہیں۔ سائنس کا موقف جدید ترین تحقیقات کی روشنی میں یہ ہے کہ ہم ایک مفروضہ قائم کریں اور ممکن تجربات اور مشاہدات پر ان کو جانچیں۔ اگر ہمارے تجربات اور مشاہدات اس مفروضہ کی تصدیق کریں تو ہمیں گمان کرنا چاہیے کہ مفروضہ درست ہے۔
عین یہی موقف اسلامی فلسفہ کا بھی ہے۔ اسلام یہ کہتا ہے کہ وہ وحی کی صورت میں ہمارے سامنے ایک "مفروضہ"رکھ دیتا ہے۔ اور یہ کہتا ہے کہ مشاہدات اور تجربات کی جو بھی معلوم مقدار ہے، اس پر جانچ کر اسے دیکھو۔ اگر معلوم مشاہدات اور تجربات اس سے نہ ٹکرائیں، بلکہ وہ اس کی تصدیق کریں تو یہ اس بات کا قرینہ ہو گا کہ وحی کی صورت میں جو مفروضہ قائم کیا گیا وہ عین درست ہے۔
نیوٹن نے دیکھا کہ سیب درخت سے ٹوٹ کر زمین پر گر گیا۔ اس سے اس نے یہ نظریہ یا مفروضہ قائم کیا کہ زمین میں کھینچنے کی طاقت ہے۔ اس واقعہ میں سیب کا گرنا ایک مشہود واقعہ ہے، مگر زمین کی قوت کشش ایک غیبی واقعہ۔ اس واقعہ میں سائنس داں نے ایک غیبی واقعہ کو صرف اس لیے مان لیا کہ ایک مشہود واقعہ اس کی موجودگی کا قرینہ پیش کر رہا تھا۔ دوسرے لفظوں میں ہے کہ اس نے" گرنے" کو دیکھ کر "گرانے والے "کا اقرار کر لیا۔ اصولی طور پر، ٹھیک ہی طریق استدلال قرآن میں بھی اختیار کیا گیا ہے۔ قرآن بھی یہی کرتا ہے کہ وہ مشہود حقائق سے غیبی حقائق پر دلیل قائم کرتا ہے۔ وہ واقعہ کی بنیاد پر صاحب واقعہ کو ماننے کی دعوت دیتا ہے۔
اس طرز استدلال کی ایک مثال قرآن میں یہ ہے : أَفَعَيِينَا بِٱلْخَلْقِ ٱلْأَوَّلِ ۚ بَلْ هُمْ فِى لَبْسٍۢ مِّنْ خَلْقٍۢ جَدِيدٍۢ (کیا ہم پہلی بار پیدا کرنے سے عاجز رہے، بلکہ یہ لوگ از سر نو پیدا کرنے کی طرف سے شبہ میں ہیں) ۵۱/۵۰
سورہ ق کی اس آیت میں تخلیق اول سے تخلیق ثانی پر استدلال کیا گیا ہے۔ اس استدلال کی منطق یہ ہے کہ پہلے زندگی بعد موت کا "دعوی "پیش کیا گیا۔ اس کے بعد زندگی قبل موت کا مشاہدہ سامنے لایا گیا۔ اور پھر کہا گیا کہ جب پہلی بار بے زندگی سے زندگی کا وجود میں آنا ممکن تھا تو دوسری بار بے زندگی سےزندگی کا وجود میں آنا کیوں نا ممکن ہوگا۔
انسان خود اپنے وجود کی صورت میں اور دوسرے بے شمار انسانوں کی موجودگی کی صورت میں پہلی تخلیق کا تجربہ کر رہا ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ انسان ایک مکمل وجود کے طور پر پہلی بار دنیا میں آتا ہے۔ اس کے بعد وہ مرکر دوبارہ اپنی قبل از پیدائش حالت کی طرف واپس چلا جاتا ہے۔
گویا کہ انسان حالت موت سے حالت زندگی میں آیا۔ اور اس کے بعد پھر حالت موت میں چلا گیا۔ اب اگر ایک بار حالت موت سے حالت زندگی میں آنا ممکن تھا تو دوسری بار حالت موت سے حالت زندگی میں آنا کیوں ناممکن ہو جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلی بار زندگی کا ثابت ہونا، دوسری بار زندگی کو اپنے آپ ثابت کر دیتا ہے۔
برٹرینڈ رسل ایک ملحد فلسفی ہے۔ مگر اس نے بالواسطہ طور پر اس واقعہ کا اعتراف کیا ہے، اس نے لکھا ہے کہ اہل مذاہب کے دلائل میں کم از کم ایک دلیل ایسی ہے جس کو منطقی دلیل (logical argument) کہا جاسکتا ہے۔ یہ نظم کے ذریعہ استدلال (argument from design) ہے جس سے خدا کے وجود کو ثابت کیا جاتا ہے، یعنی جب دنیا میں نظم ہے تو لازم ہے کہ اس کا ایک ناظم بھی ہو۔
برٹرینڈ رسل نے اگر چہ خود اس دلیل کو ماننے سے انکار کیا ہے۔ تاہم وہ مانتا ہے کہ اپنی نوعیت (nature) کے اعتبار سے یہ دلیل ایک خالص سائنسی دلیل ہے۔
Bertrand Russell, Why I am not a Christian, p. 9
حقیقت یہ ہے کہ اصولی اعتبار سے، قرآن کے استدلال اور سائنس کے استدلال میں کوئی فرق نہیں۔ تمام سائنسی نظریات میں معلوم سے نا معلوم پر دلیل قائم کی جاتی ہے۔ اسی طرح قرآن میں بھی معلوم سےنامعلوم یا شہود سے غیب پر دلیل قائم کی گئی ہے۔ قرآن کا طریق استدلال بھی اتنا ہی سائنٹفک ہے جتناعلوم مادی کا استدلال۔
اسلامی فلسفہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے خالص سائنٹفک فلسفہ ہے۔ جو لوگ سائنٹفک فلسفہ کو مانتے ہوں، ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اسلامی فلسفہ کی معقولیت (validity) کو پوری طرح تسلیم کر لیں۔ خالص علمی اعتبار سے، اس موقف کے سوا کوئی اور موقف انسان کے لیےدرست نہیں۔
قرآنی فلسفہ اور سائنسی فلسفہ میں اصل فرق مقدمات کی ترتیب کا ہے نہ کہ ثانوی عقلیت اور ابتدائی عقلیت کا۔ موجودہ دنیا میں انسان کے لیے عملاً ایک ہی طریق استدلال ممکن ہے، اور قرآن اور سائنس دونوں کا طریق استدلال بنیادی طور پر یہی ہے۔