غلط استدلال
امام بخاری نے اپنی "صحیح " میں کتاب الدعوات (باب إذا بات طاهرا) میں البراء بن عازب رضی اللہ عنہ کی ایک روایت نقل کی ہے۔ ان کو رسول اللہ صلی ا للہ علیہ سلم نے بتایا کہ تم سونے کے لیے بستر پر جاؤ تو کس طرح سوؤ اور اس وقت کون سی دعا پڑھو۔ یہ ایک لمبی روایت ہے۔ اس کا آخری حصہ یہ ہے :
آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ، وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ، فَإِنْ مُتَّ مُتَّ عَلَى الْفِطْرَةِ فَاجْعَلْهُنَّ آخِرَ مَا تَقُولُ). فَقُلْتُ أَسْتَذْكِرُهُنَّ: وَبِرَسُولِكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ. قَالَ: (لَا، وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أرسلت)(صحیح بخاری،حدیث نمبر ۵۹۵۲(
میں تیری کتاب پر ایمان لایا جو تو نے اتاری اور تیرے نبی پر جس کو تونے بھیجا۔ اس کے بعد اگر تم مر گئے تو تم فطرت پر مرو گے۔ اور تم اس قول کو آخری قول بناؤ۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر میں نے یاد کرتے ہوئے دہرایا : وبرسولک الذی أرسلت۔ آپ نے کہا کہ نہیں۔ وبنبیک الذی ارسلت۔
اس واقعہ کی بنیاد پر کچھ لوگوں نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ حدیث بالمعنی کی روایت جائز نہیں (لا یجوز رواية الحديث بالمعنی) رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وسلم نے جو دعا سکھائی تھی اس میں بنبيك الذي ارسلت کا لفظ تھا۔ صحابی نے اس کو دہرایا تو ان کی زبان سے برسولِكَ الَّذی ارسلت نکل گیا۔ دونوں کا مطلب ایک تھا مگر لفظ میں فرق ہو گیا تھا۔ آپ نے اس لفظی فرق کو گوارا نہیں کیا۔ بلکہ خود اپنے کہے ہوئے لفظ ہی کو دہرانے کی تاکید فرمائی۔ اس سے یہ نکلا کہ روایت بالمعنی کا طریقہ صحیح نہیں، بلکہ لفظ کی تبدیلی کے بغیر بعینہ روایت کرناضروری ہے۔
اگر اس دلیل کو مان لیا جائے تو احادیث کا بیشتر ذخیرہ قابل رد ٹھہرے گا۔ کیوں کہ بیشتر حدیثوں کی حیثیت روایت بالمعنی ہی کی ہے۔ مگر یہ استدلال بذات خود درست نہیں۔ یہ حدیث کو اس کے اصل مفہوم سے ہٹا کر اس کا ایک غلط مفہوم بیان کرنا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث کا تعلق اس مسئلہ سے نہیں ہے کہ روایت بالمعنی صحیح ہے یا روایت باللفظ۔ اس کا تعلق تمام تر ایک ادبی مسئلہ سے ہے۔ برسولک الذی ارسلت میں لفظی تکرار کی وجہ سے ایک ادبی نقص پیدا ہورہا تھا۔ اس لیے آپ نے بنبیک الذی ارسلت کہنے کے لیے فرمایا جو ادبی اعتبار سے زیادہ بہتر ہے ––––––– اس دنیا میں خداا ورسول کے کلام کو بھی غلط مفہوم دیا جا سکتا ہے۔ پھر ایک انسان کے کلام سے غلط مفہوم نکالنا کیوں کر ممکن نہ ہو گا۔