فطرت کا تقاضا
تجرد (غیر شادی شدہ زندگی) کو بعض مذاہب میں تقدس کا درجہ دیا گیا ہے۔ مگر جب بھی تجرد کو عمل میں لایا گیا، معاشرہ میں ناقابلِ حل خرابیاں پیدا ہو گئیں۔ مثلاً قدیم یونان میں تجرد (celibacy) پر عمل کرنے کا انجام یہ ہوا کہ ان کی آبادی میں غیر معمولی کمی آگئی (815/14) اسی طرح مسیحی چرچ میں تجرد کو اعلیٰ معیار قرار دیا گیا۔ اس کا نتیجہ اس بدتر صورت میں ظاہر ہوا کہ اہل کلیسا میں غیر منکوحہ تعلقات اور ناجائز اولاد کے مسائل پیدا ہو گئے (1043/3)
یہ فطرت سے انحراف کی سزا ہے۔ جب بھی انسان کے کسی فطری تقاضے پر پابندی لگائی جائے گی، یہ پابندی شدید تر برائیاں پیدا کرے گی۔ جو تقاضا تخلیقی طور پر انسان کی فطرت میں شامل ہو، اس پر روک لگانا ممکن نہیں۔ ایسے کسی تقاضے پر روک لگا نا صرف اس قیمت پر ہوتا ہے کہ مزید ایسی سنگین خرابیاں پیدا ہو جائیں جن پر کنٹرول کرنا ممکن نہ ہو۔
اسی قسم کی غیر فطری پابندی کی ایک مثال لوگوں کو تنقید سے روکنا ہے۔ تنقید دوسرے فطری تقاضوں کی طرح ایک فطری تقاضا ہے۔ اگر اس پر روک لگائی جائے تو اس کا نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ لوگوں کے دلوں میں تو کچھ ہو گا مگر وہ زبان سے کچھ اور بیان کریں گے۔ اس طرح لوگوں کے اندر منافقت کی برائی پیدا ہو جائے گی۔ اور منافقت تمام برائیوں میں سب سے زیادہ بڑی برائی ہے۔
یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ لوگوں کی سوچ میں فرق ہوتا ہے۔ اس بنا پر لوگوں کی رایوں میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے۔ اسی اختلافِ فکر کے اظہار کا نام تنقید ہے۔ تنقید اختلافِ رائے کی بنا پر ظہور میں آتی ہے اور اختلاف رائے فطرت کے لازمی تقاضے کی بنا پر۔
تنقید پر روک لگانے سے تنقید کا اصل سبب تو ختم نہ ہوگا۔ البتہ اس کا عملی نتیجہ یہ نکلے گا کہ لوگ منافق بن جائیں گے۔ لوگوں کے دلوں میں تنقید ہوگی اور زبان پر تعریف۔ وہ بناوٹی باتیں کریں گے۔ ان کے قول اور ان کے احساس میں مطابقت باقی نہ رہے گی۔ اسی دو عملی کا نام منافقت ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ تنقید کو برداشت کرنے کا مزاج پیدا کیا جائے نہ کہ خود تنقید پر روک لگائی جائے۔ تنقید کو برداشت کرنے سے صحت مند معاشرہ بنتا ہے اور تنقید کو بند کرنے سے منافق معاشرہ۔