زندگی اور موت
موت زندگی کا خاتمہ نہیں ، موت نئی زندگی کا آغاز ہے۔ موت کسی آدمی کے عرصۂ حیات کا سب سے زیادہ سنگین لمحہ ہے۔ موت وہ دن ہے جب کہ آدمی اپنی زندگی کے نئے مرحلہ میں داخل ہوتا ہے۔
موت کے دن آدمی اپنے دورِ عارضی سے نکل کر اپنے دورِ ابدی میں پہنچ جاتا ہے۔ وہ اپنے دورِ عمل کو پورا کر کے اپنے دورِ جزاء میں قدم رکھتا ہے۔ موت سے پہلے آدمی ایک ایسی دنیا میں تھا جہاں حقیقتیں چھپی ہوئی ہیں ، موت کے بعد وہ ایک ایسی دنیا میں ہو گا جہاں تمام حقیقتیں سورج اورچاند کی طرح ظاہر ہو کر سامنے آجائیں گی۔
موت سے پہلے معرفت کا امتحان ہے ، موت کے بعد مشاہدہ کا تجربہ۔موت سے پہلے کی زندگی میں آدمی کو اس آزمائش میں ڈالا گیا ہے کہ وہ دیکھے بغیر حقیقتوں کو مانے۔ جبر کے بغیر وہ اپنے آپ کو سچائی کے آگے جھکا دے۔ اس کے لیے مادی نفع نقصان کا مسئلہ نہ ہو تب بھی وہ خدا کی رہنمائی کو پوری طرح اختیار کر لے۔
یہ صورت حال موجودہ زندگی کو بے حدسنگین بنا دیتی ہے۔ کیوں کہ جو آدمی آج کی آزمائش میں پورا نہ اترے اس نے اپنے آپ کو ابدی ناکامی کے خطرےمیں مبتلا کر دیا۔
جو آدمی آنکھ اور دل اور دماغ رکھتے ہوئے آج حق کو نہ پہچانے وہ کل کی مستقل دنیا میں اپنے آپ کو اندھے اور بہرے انسان کی صورت میں پائے گا۔ جس آدمی کے سامنے سچائی ظاہر ہو مگر وہ اس کے اعتراف میں اپنی زبان نہ کھولے ، وہ کل کی دنیا میں اس حال میں اٹھے گا کہ وہ گونگا اور حقیر بنا ہوا ہو گا اور کوئی تدبیر نہ ہوگی جس کے ذریعہ وہ اپنے آپ کو اس حالت سے نکالے۔ جس آدمی نے اپنے زبان و قلم کو اس لیے استعمال کیا کہ وہ لوگوں کو حق سے دور کرے، وہ اگلی دنیا میں خدا کی قربت سے دور کر دیا جائے گا۔ اس کو پھر کبھی یہ سعادت حاصل نہ ہوگی کہ وہ اپنے رب کا دیدار کرے اور خدا سے قریب ہونے کی خوشی اور ٹھنڈک حاصل کر سکے۔
موت نام ہے–––– ایک مرحلہ ٔحیات سے نکل کر دوسرے مرحلہ ٔحیات میں داخل ہونے کا۔