ایک سفر
۶ اکتوبر ۱۹۹۱ کی شام کو مجھے ایک لمبے سفر پر روانہ ہونا تھا۔ دہلی سے چل کر روم اور مالٹا اور قاہرہ پہنچنا تھا اور وہاں سے پھر دہلی واپس آنا تھا۔ آج کا اخبا رآیا تو اس کے پہلے صفحہ کی اس خبر پر نظر اٹک گئی کہ –––– ہوائی حادثہ میں ۱۳۲ آدمی ہلاک ہو گئے۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ اند و نیسی ایر فورس کے ایک جہاز میں اڑان بھرنے کے صرف تھوڑی دیر بعد دھماکہ ہوا۔ وہ جکارتا کی ایک بلڈنگ پر گر پڑا۔ اس کے تمام ۱۳۲ مسافر جل کر مر گئے :
An Indonesian air force plane crashed and exploded shortly after take-off today, killing all 132 people on board.
ایک تاجر کے بارے میں ایک بار میں نے پڑھا کہ وہ کسی سفر پر جانے والا تھا۔ عین اسی دن ایک ہوائی حادثہ کی خبر ملی۔ اس نے اپنا سفر منسوخ کر دیا۔لیکن اگلے روز عین اس وقت اس کے دل کی حرکت بند ہوگئی جب کہ وہ اپنے محفوظ مکان میں کھانے کی میز پر بیٹھا ہوا صبح کی چائے پی رہا تھا۔
اگر ہم انسانی جہا ز میں سفر نہ کر یں تب بھی ہم ایک خدائی جہازکے مسافر ہوتے ہیں۔ یہ ہمارا جسم ہے جس میں بیٹھ کر ہماری شخصیت زندگی کا سفر طے کر رہی ہے۔ جس لمحہ خدا کا حکم ہو گا جسم کی یہ سواری ٹوٹ پھوٹ جائے گی اور اس کے بعد ہماری شخصیت (روحانی وجود)کو اس سے نکال کر خدا کی عدالت میں حاضر کر دیا جائے گا۔ آدمی کو اگر اس حقیقت کا احساس ہو تو اس کو اپنے پرسکون مکان میں بیٹھنا بھی اسی طرح پر خطر دکھائی دینے لگے جس طرح کسی سمندری یا ہوائی سواری میں سفر کرنا۔
۶ اکتوبر۱۹۹۱کی شام کو عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر دہلی ائیر پورٹ کے لیے روانہ ہوا۔ میرے ساتھ ثانی اثنین بھی تھے۔ ہماری گاڑی مانوس راستوں سے گزرتی ہوئی پر سکون طور پر آگے بڑھ رہی تھی۔ اور میرے ذہن میں خیالات کا طوفان بر پا تھا۔ ایک لمحہ کے لیے مجھے محسوس ہوا کہ میراد ماغ ایک قسم کی کنورٹنگ مشین ہے جس میں دنیا کا ہر غم آخرت کے غم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ میرا یہ مزاج اتنا بڑھا ہوا ہے کہ میرا دماغ خوشی کے واقعہ کو بھی غم میں بدلتا ہے، تاکہ دوبارہ اس کو غم آخرت میں ڈھال سکے۔ دنیا میرے لیے ایک تجربہ ٔغم تھی۔ کاش اللہ اپنی رحمت سے آخرت کو میرے لیے تجربۂ مسرت بنادے۔
ایر پورٹ کے اندر داخل ہوا تو وہاں کی دنیا حسب معمول نظر آئی۔ یہاں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ یہاں کوئی مقیم نہ تھا یہاں کا ہر شخص مسافر تھا۔ میں نے لوگوں کے چہروں کو پڑھنے کی کوشش کی۔ کچھ لوگوں کی بات چیت کو سنا۔ میرے دل نے کہا کہ ان لوگوں کو سفرِ حیات کی خبر ہے۔ مگر انھیں سفرِ موت کی کوئی خبر نہیں۔ کیسے عجیب ہیں وہ لوگ جو اپنے آغاز کو جانیں مگر وہ اپنے انجام کے بارےمیں بالکل بے خبر بنے ہوئے ہوں۔
دہلی سے الیتالیا کی فلائٹ ۷۸۷ کے ذریعہ روانگی ہوئی۔ سروس ہر اعتبار سے اچھی تھی۔ جہاز کے اندر الیتالیا کا میگزین ULISSE پڑھا۔ ایک مضمون میں یہ مقولہ نقل کیا گیا تھا کہ––––– ایک سفر کا خاتمہ دوسرے سفر کا آغاز ہے:
The end of one journey is the start of another.
میگز ین میں یہ مقولہ الیتا لیا کے کمرشیل ہوائی جہازوں پر چسپاں کیا گیا تھا جو ہر سفر کے خاتمہ پر دوسرے سفر کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں۔ مگریہ مقولہ زیادہ بہتر طور پر انسانی زندگی کے اوپر چسپاں ہوتا ہے۔ جب آدمی کی موت آتی ہے اور اس کی ایک زندگی بظاہر ختم ہو جاتی ہے تو یہ خاتمہ سادہ معنوں میں صرف خاتمہ نہیں ہو تا بلکہ ایک وسیع تر دور حیات کا آغاز ہوتا ہے۔
یہ جہاز بوئنگ ۷۴۷ تھا۔ اس کے اندر ۱۹۲ سیٹیں تھیں۔ جہاز کا سفر موجودہ زمانے میں ایک عام ذریعہ ٔسفر بن چکا ہے۔ مگر میں جب بھی ہوائی جہاز میں سفر کرتا ہوں تو میرے اندر سخت استعجاب کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ اللہ تعالٰی کی کیسی عجیب رحمت ہے کہ اس نے موجودہ دنیا میں ایسے امکانات رکھے جو ہوائی جہاز کی صورت میں ڈھل جائیں اور انسان کے سفر کو حیرت ناک حد تک تیز رفتار بنا دیں۔
خدا نے ایسا نہیں کیا کہ وہ بنے بنائے ہوائی جہاز انسان کو دیدے۔ بلکہ اس نے زمین میں ہوائی جہاز کے امکانات رکھے اور یہ انسان کے اوپر چھوڑ دیا کہ سیکڑوں سال کی تحقیق اور جستجو کے بعدوہ ایک واقعی جہاز بنا سکے۔
یہ اللہ تعالی کی ایک سنت ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہےکہ اللہ کو انسان کے لیے اکتشافی طریقہ(discovery method) پسند ہے۔ یہی طریقہ اس نے دین میں بھی رکھا ہے۔ دین اپنی حقیقت کے اعتبار سے اتنا واضح ہے کہ اس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے (لیلھا کنھارھا)مگر اللہ نے دین پر التباس(الانعام: ۹) کا پردہ ڈال دیا ہے۔یہ ایک تدبیر ہے جس کا مقصد انسان کے ذہن کو متحرک کرنا ہے۔ یہ اس لیے ہے تاکہ آدمی اپنی فکری قوتوں کوعمل میں لا کر اس پر دے کو پھاڑے اور دین کو ذاتی معرفت کی سطح پر دریافت کرے۔
پچھلی رات میں دہلی میں سو نہیں سکا تھا۔ جہاز میں داخل ہوا تو نیند اور تکان کا سخت غلبہ تھا۔ چناں چہ جلد ہی نیند آگئی۔ میں لیٹ گیا اور گہری نیند سوتا رہا۔ دہلی سے روم کی پرواز مسلسل ۹ گھنٹے کی ہے مگر اس کا بڑا حصہ سونے میں گزر گیا۔ اور ایک تھکا دینے والا سفر بآسانی طے ہو گیا۔
جسم اسی طرح خود کار نظام کے تحت کھوئے ہوئے کی تلافی کرتا ہے۔تلافی (compensation) فطرت کا ایک مستقل اصول ہے۔ مثلاً کسی آدمی کے جسم سے اس کا ایک گردہ نکال دیا جائے تو دوسرا گردہ اپنے آپ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اتنا بڑا ہو جاتا ہے کہ تنہا پورے جسم کی ضرورت کو پوری کر سکے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خدا کا پسندیدہ طریقہ کیا ہے۔ وہ تلافی مافات کا طریقہ ہے۔ اس کے مطابق اگر کوئی قوم دوسری قوموں سے پچھڑ جائے تو اس کے لیے فطری طریقہ یہ ہوگا کہ وہ سب سے پہلے اپنی کمی کی تلافی کرے۔ کمی کی تلافی کے بغیراقدام کر نا فطرت کے مقررہ طریقہ کے خلاف ہے۔ اور جو لوگ فطرت کے طریقہ کے خلاف عمل کریں ان کا ناکام ہو جانا یقینی ہے۔
۹ گھنٹہ کی مسلسل پرواز کے بعد جہاز۷ اکتوبر کی صبح کو روم میں اتر گیا۔ لینڈنگ نہایت ہموار تھی۔جس کا نفرنس میں مجھے شرکت کرنا ہے وہ اگر چہ مالٹا میں ہے مگر اس کے نمائندہ ڈاکٹر پالو مبیDr Leonardo Polombi)) دو آدمیوں کے ساتھ روم ایر پورٹ پر ہماری رہنمائی کے لیے موجود تھے۔ یہ کانفرنس ویٹیکن کے ماتحت ایک اطالوی اداره(CXomunity of S. Egidio) کی طرف سے کی جار ہی ہے۔
ہمارے اخبارات ورسائل میں ویٹیکن اور دوسرے مسیحی اداروں کے بارے میں صرف یہ چھپتا ہے کہ وہ اسلام کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ مگر طریق کار کے اعتبار سے ان کے یہاں جو اعلیٰ نمونہ ہےاس سے مسلمانوں کو باخبر نہیں کیا جاتا۔ یہ لوگ جس غیر معمولی نظم اور باقاعدگی اور منصوبہ بندی کے ساتھ اپنا کام کرتے ہیں اس سے اب تک کوئی سبق نہیں لیا گیا۔ حالاں کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ دشمن کے اندر بھی اگر کوئی ہنر ہے تو اس کو اس سے سیکھنے کی کوشش کرو۔
۶اکتوبر ۱۹۹۱کو فجر کی نمازمیں نے نظام الدین (دہلی) کی قریش مسجد میں پڑھی تھی۔۷ اکتوبر کوفجر کی نمازروم ایر پورٹ کے وی آئی پی لاونج میں پڑھی۔ مسجد کے مقدس ماحول میں نماز پڑھنے کے بے شمار فائدے ہیں۔ مگر ایک غیر مسجد میں یا ایک نئے مقام پر نماز پڑھنا ایک ایسا انوکھا تجربہ ہے جس کو لفظوں میں بیان کرنا بے حد مشکل ہے۔ یہ وہ خصوصی لمحہ ہے جب کہ بندہ اس احساس سے دوچار ہوتا ہے کہ میں ایک ایسے مقام پر جھک کر سجدۂ اعتراف کر رہا ہوں جہاں مجھ سے پہلے شاید کسی انسان نے سجدۂ اعتراف پیش نہیں کیا۔ یہ ایک ایسا احساس عبدیت ہے جس کا تجربہ عام حالات میں نہیں کیا جاسکتا۔
ہماری پہلی منزل روم تھی۔ روم میں اگلا جہاز کافی دیر کے بعد تھا۔ اس طرح ہم کو یہاں چھ گھنٹے سے زیادہ مل رہے تھے۔ ایر پورٹ پر کانفرنس کے جو منتظمین ہم سے ملنے کے لیے آئے تھے ، ان سے ہم نے کہا کہ روم میں ہم خاص طور پر دو چیزیں دیکھنا چاہتے ہیں، ایک ویٹیکن اور دوسرے یہاں کا اسلامی مرکز اور مسجد۔وه بخوشی اس پر راضی ہو گئے۔ ہمارے پاس اٹلی کا ویزا نہیں تھا۔ عام حالات میں اب ویزا حاصل کرنا ہمارے لیے تقریباً ناممکن تھا۔ مگر انھوں نے فوراً کارروائی کر کے ہمارا ویزا حاصل کیا۔ اس کے بعد وہ ہم کو لیکر شہر کی طرف نکلے۔ ویٹیکن سے تعلق رکھنے والوں کو یہاں خصوصی اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔
روم کے مختلف علاقوں سے گزارتے ہوئے وہ ہم کو ویٹیکن میں لے گئے۔ اس طرح ہم نے روم کو بھی کم از کم ایک حد تک دیکھ لیا۔ ویٹیکن کو اندر اور باہر سے پوری طرح دیکھا۔ یہ ایک مربع کلو میٹرسے بھی کم رقبہ میں واقع ہے۔ پوپ کی رہائش گاہ بھی یہیں ہے۔ سینٹ پیٹر (پطرس)کا مقبرہ اس کا سب سے زیادہ مقدس حصہ ہے۔ ایک جگہ میں نے دیکھا کہ سینٹ پیٹر کا بڑا مجسمہ ہے۔ لوگ اس کے پاؤں کو احترام کے ساتھ چھوتے ہیں اور اس کو چوم رہے ہیں۔
ویٹیکن ساری دنیا کے مسیحیوں کا مذہبی مرکز ہے۔ وہ ہر طرف مجسموں سے بھرا ہوا ہے۔ مسیح اور مریم اور فرشتوں کے مجسموں سے لے کر بعد کے مسیحی اکا بر اور مختلف زمانوں کے پوپ کے مجسمےجگہ جگہ لگے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سنگ مرمر کا ایک مجسمہ مائیکل انجلو کا بنایا ہوا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس میں مریم کو بیٹھا ہوا دکھایا گیا ہے۔ اور ان کے دونوں پیروں پر ایک دبلا اور مردہ جسم بیچار گی کی حالت میں پڑا ہوا ہے۔ یہ ان کے عقیدےکے مطابق حضرت مسیح کا مردہ جسم ہے جس کو صلیب دیے جانے کے بعد حضرت مریم نے اٹھالیا تھا۔ مزعومہ خدا کی یہ بے کس تصویر بھی کیسی عجیب ہے۔
ویٹیکن کو دیکھ کر یہ تاثر ذہن میں نہیں آتا کہ مذہب کسی خدا پر مبنی نظریہ کا نام ہے۔ اس کے برعکس اس کو دیکھنے سے یہ تاثر ذہن میں آتا ہے کہ مذہب ایک ایسا نظریہ یا عقیدہ ہے جو انسانی شخصیتوں کے تقدس پر قائم ہے۔
ویٹیکن (Vatican) روم کی ایک پہاڑی کا نام ہے۔ یہاں سینٹ پیٹر(پطرس) کی قبر ہے۔ اور پوپ کی قیام گاہ ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کیتھولک عیسائیوں کی کئی مقدس اور متبرّک چیزیں یہاں کے میوزیم میں رکھی ہوئی ہیں۔
ویٹیکن کارقبہ صرف ۱۰۸ مربع ایکڑ ہے۔ اس کے باشندوں کی مجموعی تعداد تقریباً ایک ہزار ہے۔ مگر اس چھوٹی سی دنیا میں ایک مکمل ریاست قائم ہے۔ یہ مذہبی ریاست قانونی طور پر ۱۹۲۹ میں مسولینی کے زمانے میں قائم ہوئی۔ جس معاہدہ کے حقوق اس کا قیام عمل میں آیا اس کو معاہدۂ لیتران (Lateran Treaty) کہا جاتا ہے۔ اس معاہدہ کے تحت پوپ یا ویٹیکن حکومت کو اندرونی طور پر مکمل آزادی حاصل ہے۔ یہ گویا ریاست کے اندر ایک ریاست ہے تاہم وہ اس کی پابند ہے کہ وہ اٹلی کی حکومت کے معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔
۱۹۲۹کے معاہدہ کو دیکھیے تو بظاہر محسوس ہو گا کہ ویٹیکن اپنے آپ کو بہت چھوٹی حیثیت پر راضی کر رہا ہے۔ ویٹیکن کا رقبہ ایک مربع کلو میٹر سے بھی کم ہے۔ جب کہ اٹلی کا رقبہ ۳۰۱۲۶۲مربع کیلومیٹر ہے۔ گویا جغرافی معنوں میں ویٹیکن کو اٹلی کا ایک فیصد سے بھی کم رقبہ حاصل ہے۔
مگر حقائق کبھی الفاظ کے پابند نہیں ہوتے۔ چناں چہ ویٹیکن نے ایک اور پہلو سے اپنی کمی کی تلافی کرلی۔ اٹلی کی ۹۹ فیصد آبادی عیسائی ہے۔ اس اعتبار سے اٹلی کے تمام باشندوں نیز تمام دنیا کے عیسائیوں کے دلوں تک اس کا رقبہ پھیلا ہوا ہے۔ حتی کہ کہا جاتا ہے کہ اپنے انتہائی چھوٹے رقبہ کے باوجود ویٹیکن کو عملاً اٹلی سے بھی زیادہ بڑی حیثیت حاصل ہے۔ کیوں کہ وہ(ویٹیکن) مسیحی مذہب کی سب سے بڑی شاخ ، کیتھولک چرچ ، کا صدر مقام ہے:
Despite its minuscule size, however, Vatican City has been said to possess an influence greater than that of Italy itself, for it is the site of the headquarters of the largest branch of the Christian religion, the Roman Catholic Church. (19/36)
ویٹیکن کی سرکاری زبان لاتینی ہے۔ ویٹیکن کے تمام آفیشل ڈاکو منٹ لاتینی زبان ہی میں تیار کیے جاتے ہیں۔ مگر لاتینی زبان عربی زبان کی مانند نہیں۔ وہ ایک مردہ زبان ہے۔ صرف کچھ اختصاصی علماء ہی اس میں مہارت رکھتے ہیں۔ چناں چہ لسانی امور میں اکثر غلطیاں ہوتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر ، ۱۹۸۹ میں پوپ کے اسکینڈ ینیویا کے سفر پر ویٹیکن حکومت نے ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا۔ اس میں سویڈن کے لیے جو قدیم لاتینی لفظ (Sueta) لکھا گیا تھا اس کا تلفظ غلط تھا :
In 1989 the hierarchy was embarrassed when a stamp commemorating Pope John Paul II's trip to Scandinavia misspelled the Latin word for Sweden. (Time, 7-10-1991)
اس قسم کے ناخوش گوار واقعات سے متاثر ہو کر ویٹیکن نے لاتینی زبان کی ایک ڈکشنری خصوصی اہتمام کے ساتھ تیار کرائی ہے۔ اس میں(۱۳۵۰۰) نئے الفاظ شامل ہیں۔ اس کی پہلی جلد حال میں چھپی ہے اور دوسری جلدعنقریب چھپنے والی ہے۔ یہ کام ایک پندرہ سالہ ادارہ لیٹن فاؤنڈیشن (Latin Foundation) کے تحت کیا جا رہا ہے۔
اسلام کے سوا دوسرے تمام ادیان کی مذہبی زبان اب کلاسیکل بن چکی ہے۔ یہ صرف اسلام ہے جس کی مذہبی زبان آج بھی مکمل طور پر ایک زندہ زبان ہے۔ یعنی عربی زبان۔
ویٹیکن کودیکھنے کے بعد ہم روم کی مسجد اور اسلامی مرکز دیکھنے کے لیے گئے۔ یہ مقام ایئر پورٹ سے بذریعہ کار پون گھنٹہ کی مسافت پر واقع ہے۔ یہ روم کا ایک پر فضا مقام ہے۔ ویٹیکن میں اندر اور با ہر ہر طرف صرف عمارتوں کا ایک پتھر یلاجنگل نظر آتا ہے۔ مگر اسلامی مرکز کے چاروں طرف کھلا ہوا علاقہ ہے۔ یہاں دور دور تک درخت اور سبزہ دکھائی دیتا ہے۔
تاہم یہ مرکز ابھی تک زیر ِتعمیر ہے۔ وہاں نماز قائم نہیں ہو سکی ہے۔ ---- کمپنی اس کی تعمیر کر ا ر ہی ہے۔ اس نے مسجد کے اندر داخلہ ممنوع قرار دے رکھا ہے۔ مرکز کے ذمہ داروں نے ہم کو تحریری اجازت دی۔ اس کے بعد ہمارا تین آدمیوں کاقافلہ اس کے اندر داخل ہو سکا۔
یہ بہت وسیع اور بالکل جدید طرز کی مسجد ہے۔ اس سے متصل عمارتوں میں اسلامی مرکز کے دفاتر قائم ہوں گے۔ رقبہ بھی کافی بڑا ہے۔ حکومت اٹلی نے جب یہاں مسجد اور اسلامی مرکز قائم کرنے کی اجازت دی اس وقت یہاں کوئی سڑک نہ تھی جو اس کو بقیہ شہر سے جوڑ سکے۔ یہاں کے قانون کے مطابق، اس کے بعد نہایت عمدہ سڑک بنائی گئی جو مسجد سے متصل گزرتی ہے۔ اس سڑک کا نام مسجدروڈ (Viale Della Moschea) ہے۔
۱۹۲۹میں مسولینی نے ویٹیکن کے لیے لیتران معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔ اس کے بعد ۱۹۳۰ میں اٹلی میں مقیم افریقی مسلمانوں کا ایک وفد مسولینی سے ملا اور اس سے کہا کہ ہم کو روم میں ایک مسجد بنانے کی اجازت دی جائے۔ کہا جاتا ہے کہ مسولینی نے اس کا جواب یہ دیا کہ روم عیسائیوں کا مقدس شہر ہے جس طرح مکہ مسلمانوں کا مقدس شہر ہے۔ روم میں مسجد بننا اسی وقت ممکن ہے جب کہ مکہ میں بھی ایک کیتھولک چرچ بن کر کھڑا ہو جائے۔
تاہم روم کے مسلمانوں نے کوشش جاری رکھی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے عرب پٹرول کی طاقت ظاہر کر دی۔ وہ دور آگیا جب کہ امریکی میگزین نیوز و یک (۱۸ فروری ۱۹۷۴) نے لکھا کہ قدیم زمانے میں کہا جا تا تھا کہ تمام سڑکیں روم کو جاتی ہیں۔ مگر اب حالات بدل چکے ہیں۔ آج تمام سڑکیں ریاض کو جارہی ہیں :
(All roads lead to Riyadh)
اٹلی کو عرب پٹرول کی ضرورت پیش آگئی۔ اس افادی منطق نے اٹلی کو جھکنے پر مجبور کر دیا۔ چناں چہ دو طرفہ گفت و شنید کے دوران ۱۹۷۳ میں سعودی حکمران شاہ فیصل نے اٹلی کی حکومت سے یہ یقین دہانی حاصل کر لی کہ وہ روم میں مسجد بنانے کی اجازت دے دے گی۔ اسی کے ساتھ پوپ پال ششم نے بھی یقین دلایا کہ وہ مسجد کے پروجیکٹ میں مداخلت نہیں کریں گے۔ اس کے بعد سائٹ کی تلاش ہوئی۔ آخر کار ایک مقام پر ۳۰ ہزار مربع میٹر کا رقبہ مسجد اور اسلامک سنٹر کے لیے مختص کر دیا گیا اور ۱۹۸۳ میں وہاں کام شروع ہو گیا۔ اندازہ ہے کہ اس کی تکمیل پر پچاس ملین ڈالر خرچ ہوں گے۔ اٹلی میں تقریباًچار لاکھ مسلمان آباد ہیں۔مسجد کے اندر دو ہزار آدمیوں کے لیے نماز پڑھنے کی گنجائش ہوگی۔ روم میں ایک ہزار عیسائی چرچ اور یہودیوں کے آٹھ سینا گاگ ہیں۔ اب ایک باقاعدہ مسجد بھی وہاں تعمیر ہو گئی ہے۔ دوسری مسجد میلان میں ہے۔
۱۹۳۰میں جو چیز بظا ہر نا ممکن تھی وہ آج واقعہ بن کرشاندار طور پر روم کے اندر کھڑی ہوئی ہے۔ خدا کی دنیا میں ہر نا ممکن کو ممکن بنانے کے مواقع ہیں۔ بشرطیکہ سنت الہٰی کے مطابق اس کا انتظارکیا جائے۔
روم میں میرے رہنما ڈاکٹر لیونارڈو تھے۔ وہ پختہ عیسائی ہیں اور ویٹیکن سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے انتہائی ذوق و شوق کے ساتھ مجھ کو روم کی سیاحت کرائی۔ انھوں نے جس دلچسپی کے ساتھ مجھ کو ویٹیکن دکھایا ٹھیک اسی دلچسپی کے ساتھ انھوں نے روم کی مسجد اور اسلامک سنٹر کو بھی دکھایا۔
میرے تجربہ کے مطابق مسلمانوں کے اندر اس قسم کا کردار موجود نہیں۔ اور اس کا واحد سبب د عوتی مزاج کا فقدان ہے۔ داعی اور مبلغ عین اپنے مزاج کے تحت دوسروں میں دلچسپی لیتا ہے۔ وہ دوسروں کی پوری رعایت کرتے ہوئے ان سے معاملہ کرتا ہے۔ غیر داعی کا مزاج اس سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ داعی اپنے ساتھ دوسروں کو بھی جانتا ہے اور غیر داعی صرف اپنے آپ کو۔
روم میں اگرچہ میری ملاقات کسی اردو داں سے نہیں ہوئی۔ تاہم مجھے معلوم ہوا کہ اٹلی میں اردو داں عیسائی موجود ہیں۔ انھوں نے خود اٹلی میں اردو کی تعلیم حاصل کی ہے۔
مسیحی چرچ مکمل طور پر ایک تبلیغ اور ینٹڈادارہ ہے۔ اس کے یہاں ہر قسم کی تبلیغی سرگرمیاں جدید ترین معیار پر پائی جاتی ہیں۔ اسی میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنے آدمیوں کو تمام دنیا کی زبانیں پڑھاتے ہیں۔ مسیحی چرچ کے پاس کثیر تعداد میں ایسے قابل افراد موجود ہیں جو ہر زبان میں لکھنے اور بولنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مالٹا کی کانفرنس میں کئی ایسے پادری تھے جو روانی کے ساتھ عربی زبان بولتے تھے۔ حتی کہ اپنے حلیہ ، اپنے لباس اور اپنی عادات میں بھی وہ عرب مسلمان نظر آتے تھے۔ وہ السلام علیکم، الحمد لله ، ماشاء اللہ وغیرہ الفاظ اس طرح بولتے تھے جیسے کہ ایک مذہبی مسلمان بولتا ہے۔
اٹھارویں صدی کے آغاز میں نیپلز (اٹلی) میں مسیحی حضرات نے ایک ادارہ قائم کیا۔ ۷ اپریل ۱۷۳۲ء کو پوپ کلیمنٹ دوازدہم نے اس ادارہ کو باقاعدہ طور پر تسلیم کر لیا اور اس کی سرپرستی کرتے ہوئے جنوبی اٹلی میں اس کے لیے ایک جائداد وقف کر دی۔ اس کے بعد اس میں مزید اوقاف کا اضافہ ہوتا رہا یہاں تک کہ یہ ادار ہ مستحکم اور خود کفیل ہوگیا۔ اس کا موجودہ نام او رینٹل انسٹی ٹیوٹ، نیپلز ہے۔ یہ یورپ میں علوم مشرقی کی تعلیم کا قدیم ترین مرکز سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تمام مشرقی زبانوں کی تعلیم کا انتظام ہے۔
اردو زبان کی تعلیم کا آغاز اسی ادارے میں انیسویں صدی میں ہوا۔ یہاں باقاعدہ طور پراردو کا ایک شعبہ قائم کیا گیا۔ اس وقت سے وہ باقاعدہ طور پر کام کر رہا ہے۔ اس کے طلبہ زیادہ تر وہ مسیحی نوجوان ہوتے ہیں جو مسیحیت کی تبلیغ کو بطور کیر یئر اختیار کرتے ہیں اور جن کا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اردو خواں دنیامیں مسیحیت کا پیغام پہنچائیں گے۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران پر و فیسر اجیت سنگھ اس ادارے میں اردو کے استاد تھے۔ ۱۹۶۰ میں ڈاکٹر اقتدا حسن یہاں اردو کے استاد مقرر ہوئے۔ ۱۹۸۰ میں ڈاکٹر رحیم رضا نے ان کی جگہ سنبھالی۔
اٹلی میں (دوسری عالمی زبانوں)کے ساتھ اردو کی تعلیم کا یہ انتظام حکومت کے تعلیمی نظام کے تحت نہیں ہے بلکہ چرچ کے تعلیمی نظام کے تحت ہے۔ اس کا مقصد مشنری عیسائیوں کو اردو داں بنانا ہے۔ تاکہ وہ اردو داں مسلمانوں کے درمیان عیسائیت کا پیغام پہنچا سکیں۔ مسلمان فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ اسلام عالمی مذہب ہے اور حضرت مسیح صرف "بنی اسرائیل کی بھیڑوں "کے لیے بھیجے گئے تھے مگر عملاً آج معاملہ با لکل برعکس ہے۔ مسیحیت عالمی تبلیغ کے وسیع ترین منصوبہ پرعمل پیرا ہے، جب کہ مسلمانوں کے یہاں شعور کے درجہ میں بھی عالمی تبلیغ کا کوئی حقیقی خاکہ موجود نہیں۔
اٹلی کی ایک خاتون ہیں۔ وہ ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہوئیں۔ پھر انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔ اور ایک عرب نوجوان سے نکاح کر لیا۔ ان کے عرب شوہر سے میری ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی اہلیہ اطالوی زبان کے علاوہ انگریزی زبان بھی بخوبی جانتی ہیں اور اب انھوں نے عربی بھی سیکھ لی ہے۔ عرب نوجوان نے بتایا کہ انھوں نے اطالوی خاتون کو انگریزی الرسالہ کے کچھ شمارے پڑھنے کے لیے دیے۔ ان کو پڑھ کر وہ کافی متاثر ہوئیں۔ اس کے بعد انھیں اسلامی دعوت کے بارے میں اپنی مسئولیت کا احساس ہوا۔ انھوں نے کہا کہ الرسالہ کا اسلوب عصری اسلوب ہے۔ وہ یورپی ذہن کو اپیل کرتا ہے اور دل کی گہرائی تک اتر جاتا ہے۔ میں ان مضامین سے بہت متاثر ہوئی ہوں۔ان کو پڑھ کر میں اپنی زندگی میں پہلی بار روئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کو اسی طرح پیش کرنا چاہیےإن ھذا الأسلوب أسلوب عصري يخاطب العقلية الأوربية وينفذ إلى أعماق القلب إنی تأثرت جدا بهذه المقالات وبكيت لأول مرة - هكذا يجب أن يقدم الإسلام۔
ملاقاتوں کے بعد اکثرایسے واقعات سامنے آتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی مرکز کا پیغام ایسے ایسے مقامات پر پہنچ رہا ہے جن کی بابت ہم نے سوچا بھی نہیں تھا۔ مثلاً سفر کے دوران ڈنمارک کے ایک صاحب ملے۔ انھوں نے بتایا کہ ہم نے آپ کا انگریزی الرسالہ اور انگریزی کتابیں پڑھی ہیں۔ وہ ہمارے سنٹر کی لائبریری میں موجود ہیں۔ اور لوگ ان کو شوق سے پڑھتے ہیں۔ ان کا نام اور پتہ یہ ہے :
Sheikh Mohammed Idris, Islamic Cultural Centre,
Morsebakken 2, Copenhagen 2400 NV (Tel. 01609017)
روم کے تاریخی مقامات کو دیکھنے کے بعد دوبارہ ہم روم ایئر پورٹ پر واپس آگئے۔ یہاں ایئر پورٹ لاونج میں سنڈے ٹیلی گراف (۶ اکتوبر ۱۹۹۱) دیکھا۔ اس کے صفحہ ۲۶ پر ایک کالم ویٹیکنالوجی (Vaticanology) کا تھا۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ اٹلی اور انگلستان کے سفیر سے ملاقات کرتے ہوئے پوپ جان پال دوم(11Pope John Paul)نے چرچ کی طرف سے تشدد اور تخویف کے تمام اعمال کی ان الفاظ میں مذمت کی :
The Church continues to condemn all acts of violence and intimidation, from whatever source they originate.
قدیم زمانے میں ممکن تھا کہ تشدد کو صرف ظالم اور مفسد کے خلاف استعمال کیا جائے۔ مگر موجودہ زمانے میں ٹکنکل ترقیوں نے اس کو نا ممکن بنا دیا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کے دور میں تشدد ایک ایسا مہلک عمل بن چکا ہے جو فاتح اور مفتوح دونوں کو برباد کر دیتا ہے۔ حتی کہ وہ خود زمین کو نا قابل رہائش بنا دینے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس اور امریکہ اپنے ہتھیاروں کو فناکرنے کے معاہدے کر رہے ہیں۔ ایسی حالت میں جو مسلمان تشدد اور مسلح انقلاب کی بات کرتے ہیں وہ ایک قسم کی خلاف زمانہ حرکت (anachronism) میں مبتلا ہیں۔ وہ اسلام کو بھی وہیں پہنچا دینا چاہتے ہیں جہاں وہ خود اپنی فکری پسماندگی کی بنا پر کھڑے ہوئے ہیں۔
روم سے مالٹا کے لیے الیتا لیا کی فلائٹ ۴۹۰ کے ذریعہ روانگی ہوئی۔ جہاز کے اندر ایک الیتالیا کامیگزین (Arrivederci) دیکھا۔ اس کے ایک صفحہ پر اٹلی کے ایک خوبصورت مکان کی رنگین تصویر تھی جس کے ساتھ خوبصورت تر گارڈن بھی شامل تھا۔ اس پرکشش تصویر کو دیکھ کر میری زبان سے نکلا : دنیا جنت کی ناقص تصویر ہے اور جنت اس کی کامل تصویر۔ دنیا ان کمپلیٹ ہے اور جنت کمپلیٹ۔
روم سے روانگی کا وقت ایک بج کر ۴۵ منٹ تھا۔ مگر روانگی میں آدھ گھنٹہ کی تاخیر ہوگئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آخر وقت میں معلوم ہوا کہ جہاز کے نظام میں کوئی ٹکنکل خرابی پیدا ہوگئی ہے۔ فوراً انجینئر بلایا گیا۔ دو آدمی دیر تک کام کرتے رہے۔ جب نظام کی اصلاح ہوگئی ، اس کے بعد جہاز روانہ ہوا۔
میں نے سوچا کہ جہاز کے فنی نظام میں خرابی کا علم پرواز سے پہلے ہونا اور اس کا علم پرواز کے دوران ہونا دونوں میں لفظی طور پر بہت کم فرق ہے۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پرواز سے پہلے اس کا علم ہو نا اگر زندگی ہے تو پرواز کے دوران اس کا علم ہونا موت۔
یہی معاملہ قوموں کا ہے۔ جس قوم کے لیڈ راقدام سے پہلے قوم کی کمیوں کو جان لیں وہ قوم کو زندگی کی نعمت عطا کرتے ہیں۔ اور جس قوم کے لیڈراقدام کے بعد قوم کی کمیوں اور کمزوریوں کو جانیں وہ قوم کو صرف ہلاکت کے گڑھے میں گرانے کا سبب بنتے ہیں۔
روم اور مالٹا کے درمیان سسلی واقع ہے۔ مالٹا جاتے ہوئے ہم جزائر سسلی کے اوپر سے گزرے۔ جہاز کی کھڑکی سے وہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ چناں چہ میں اس کو دیر تک دیکھتا رہا۔ میں نے سوچا کہ ہمارے اسلاف جزائر سسلی میں اترے اور اس کو تہذیب و تمدن کی ترقیاں عطا کیں۔ میرے لیے صرف یہ مقدر تھا کہ میں اس کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے گزروں۔کیسا عجیب فرق ہے ماضی اور حال میں۔
سسلی میڈیٹر ینین کا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔ اس وقت وہ اٹلی کا ایک حصہ ہے۔ قدیم زمانے میں سسلی مختلف قوموں کے ماتحت رہا ہے۔ لندن کی چھپی ہوئی ایک قدیم انسائیکلوپیڈیا (The Book of Knowledge) میں یہ الفاظ درج ہیں کہ نویں صدی میں مسلمانوں کی آمد کے بعد سسلی عرب کلچر اور عرب علم کا مرکز بن گیا تھا۔ نارمنوں نے ان کو گیارھویں صدی میں یہاں سےنکال دیا:
The arrival of the Saracens in the 9th century made Sicily a centre of Arab culture and learning. The Normans drove them out in the 11th century. (7/50)
سسلی (صقلیہ) نویں صدی میں مسلمانوں کے قبضہ میں آیا۔ اس کے بعد وہ میڈ یٹرینین میں مسلمانوں کی توسیعی مہموں کا مرکز بن گیا۔ یہاں تک کہ نارمن نے ۱۰۹۱ میں جزیرہ کے اندر اپنا اقتدارقائم کر لیا :
With the Muslim conquest of Sicily (9th century), the island became the chief base of Arab expansion in the Mediterranean until the Normans imposed their authority in 1091. (V/470, 9/932)
تاریخ کے ان واقعات میں بے پناہ سبق ہے۔ یہ واقعات ہمیں اپنی کمز وریوں کے مطالعے کی د عوت دیتے ہیں۔ مگر مسلمانوں کی لکھی ہوئی تاریخی کتا بیں ان واقعات کو صحیح انداز میں پیش نہیں کرتیں۔اس لیے ان کو پڑھ کر بھی مسلمان ان سے صحیح سبق نہیں لے پاتے۔
مثال کے طور پر ابن اثیر کی الکامل فی التاریخ کا ایک باب ہے:جزیرۂ صقلیہ پر فرنگیوں کے اقتدار کا ذکر(ذکر ملک الفرنج جزیرۃ صقلیۃ) یہ باب ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے:
في هذه السنة استولى الفرنج لعنهم الله على جميع جزيرة صقلية أعادها الله إلى الاسلام والمسلمین)۱۹۳/۱۰(
اس سن (۴۸۴ ھ) میں فرنگی پورے جزیرہ پر قابض ہو گئے ، اللہ ان پر لعنت کرے اور اللہ اس کو دوبارہ اسلام اور مسلمانوں کی طرف لوٹا دے۔
سسلی پر فرنگیوں کا دوبارہ قبضہ، جیسا کہ خود ابن اثیر نے تفصیل سے لکھا ہے ، خود مسلمانوں کی باہمی عداوتوں اور آپس کے قتل و خون کی وجہ سے ہوا۔ مگر جب آغاز بحث میں مذکورہ جملہ لکھ دیا جائے تو اس کے بعد سرے سے نصیحت کا ذہن ختم ہو جاتا ہے۔ حالاں کہ تاریخ کے مطالعے کا اصل فائدہ یہ ہے کہ اس سے حال اور مستقبل کے لیے نصیحت حاصل کی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کومؤر خانہ انداز میں لکھنا چاہیے نہ کہ معتقدانہ انداز میں۔
میڈیٹرینین میں پیش قدمی کے زمانے میں سسلی مسلمانوں کے لیے رسد گاہ کا کام کرتا تھا۔قدیم زمانے میں مسلمانوں نے اس کو کافی ترقی بھی دی تھی۔ سسلی پر عرب تہذیب کی اتنی گہری چھاپ تھی کہ عربوں کے یہاں سے چلے جانے کے بعد بھی سسلی کے امراء اور سلاطین، عرب طرز پر رہتے تھے اور عربوں جیسا لباس پہنتے تھے ، جس طرح موجودہ زمانے میں برٹش راج سے آزادی حاصل کرنے کے باوجود قدیم بر طانوی ممالک برطانوی لباس اور برطانوی زبان کو فخر کے ساتھ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ علامہ اقبال نے سسلی کی بابت کہا تھا :
رولے اب دل کھول کر اسے دیدۂ خوں نابہ بار وہ نظر آتا ہے تہذیب حجازی کا مزار
مگر سسلی کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ موجودہ زمانے میں مواصلاتی ذرائع کی ترقی نے ہمارے لیے دعوت کے مواقع کتنے زیادہ بڑھا دیے ہیں۔ ہمارے اسلاف نے "تہذیب حجازی" کو سسلی تک پہنچانے کے لیے برسوں کا دشوار گزار سفر طے کیا تھا۔ آج ہم صرف گھنٹوں کے اندر آسان سفر طے کر کے سسلی پہنچ سکتے ہیں اور وہاں کے باشندوں کو دوبارہ "تہذیب حجازی" کی تسخیری قوت سے مسخر کر سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے دعوتی شعور کی ضرورت ہے، اور دعوتی شعور موجودہ مسلمانوں میں سرے سے موجود نہیں۔
جزیره صقلیہ (سسلی) اور جنوبی اٹلی میں ایک عرصہ تک مسلمانوں کا غلبہ رہا ہے۔ اس سلسلے میں تاریخ کی کتابوں میں کافی مواد موجود ہے۔ اس موضوع پر ۲۸۰ صفحات کی ایک عربی کتاب یہ ہے : أحمد توفيق المدنى، المسلمون في جزيرة صقلية وجنوب ايطاليا،مكتبة الاستقامة ، تونس ، ۱۹۴۶ ،
اس کتاب کے صفحہ ۸۶ پر "فتح مالطة " کا عنوان ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ رومیوں نے ۵۳۳ء میں مالٹا پر قبضہ کر لیا تھا۔ ۱۸۷۰ء میں صقلیہ کے مسلم حکمرانوں نے اس کو اپنے زیر اقتدار لے لیا۔ جزیرہ پر ان کا یہ اقتدار ۱۰۹۰ ء تک باقی رہا۔ اس طرح ۲۲۰ سال تک یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم رہی۔ کتاب میں بتایا گیا ہے کہ مالٹا کے لوگ محرف عربی بولتے ہیں۔
روم سے مالٹا تک کا پورا سفر میڈ یٹر ینین کے اوپر سے ہوا۔ سمندر بھی اسی طرح نیلا نظر آرہا تھا جس طرح آسمان نیلادکھائی دیتا ہے۔ حالاں کہ باعتبار حقیقت نہ سمند ر نیلے رنگ کا ہے اور نہ آسمان نیلے رنگ کا۔
یہ صرف ایک گھنٹہ کا مختصر سفر تھا۔ ہم لوگ جہاز میں آکر بیٹھے۔ کچھ دیر ادھر ادھر کی چیزیں دیکھیں۔اتنے میں ناشتہ آ گیا۔ ناشتہ سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ" اپنی کرسی کی پیٹی باندھ لیں " کا اعلان ہونے لگا۔ پھر اعلان ہوا کہ ہم جلد ہی مالٹا کی زمین پر اترنے والے ہیں۔
مجھے ایسا محسوس ہوا کہ یہ سفر آدمی کی دنیوی زندگی کا ایک علامتی تعارف ہے۔ آدمی دنیا میں آتا ہے۔ وہ بچہ سے بڑا ہوتا ہے۔ تعلیم حاصل کرتا ہے۔ کمانے اور دنیا کی تعمیر کے کام میں مصروف ہوتا ہے۔ وہ اپنا گھر بناتا ہے۔ ابھی اس کے گھر کی دیواروں کی پینٹنگ ہو رہی ہوتی ہے کہ" کوس رحلت بکوفت دست اجل " کا وقت آجاتا ہے۔ دنیا میں زندگی کالمحہ کتنا مختصر ہے۔ اور کتنی لمبی مدت تک اس مختصر لمحہ کی قیمت انسان کو ادا کرنا ہے۔
۷اکتوبر کی شام کو ہم مالٹا ایئر پورٹ پر اتر گئے۔ جہاز سے باہر نکلے تو وہاں کا نفرنس کے نمائندے ہماری رہنمائی کے لیے موجود تھے۔ انھوں نے ہم کو ایئر پورٹ کے لاونج میں بٹھا دیا۔ ہمارے پاس مالٹا کا ویزا نہیں تھا۔ اس لیے یہاں ویز ابھی لینا تھا۔ ان لوگوں نے ہمارا پاسپورٹ لیا اور اس کے بعد ویزا کا اندراج اور دوسری ضروری کارروائیوں کے لیے وہ ہمارا بدل بن گئے۔
یہ بظاہر سادہ سی بات ہے۔ ہر کا نفرنس میں اسی طرح مہمانوں کی آمد پر ان کا استقبال اور ان کا تعاون کیا جاتا ہے۔ مگر میرا ذ ہن یہ سوچنے لگا کہ ایسا کس طرح ہوتا ہے۔ قدیم زمانے میں ایسا ممکن نہیں تھا کہ ایک شخص ہندستان سے روانہ ہو اور لمبی مدت طے کرنے کے بعد جب وہ مالٹا پہنچے تو وہاں کے لوگوں کو ہر چیز کی مکمل اطلاع ہو اور وہ عین وقت پر اس کی مدد کے لیے وہاں موجود ہوں۔ مگر آج جب ایک شخص غیر ملک میں اترتا ہے تو وہاں اس کے میزبان کو آمد کا وقت اور تاریخ اور سواری وغیرہ کی اطلاعات انتہائی صحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہیں۔
یہ معجزہ "مواصلات" (کمیونیکیشن) کی ترقی کے ذریعہ ممکن ہوا ہے۔ جدید مواصلات اللہ تعالیٰ کی عجیب نعمت ہیں۔ وہ خدا کی قدرت کو یاد دلاتے ہیں۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب وہ بیرونی دنیاکے سفر کرتے ہیں تو وہ فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ میں فلاں مقام پر پہنچا تو وہاں اتنے آدمی میرے استقبال کےلیے موجود تھے۔ ایک واقعہ جس کو حقیقۃً خدا کی گلوری کے خانہ میں ڈالنا چاہیے اس کو وہ ذاتی گلوری کے خانہ میں ڈال دیتے ہیں۔ کیسے عجیب ہیں وہ لوگ جو اپنے آپ کو جانیں مگر وہ خداوند ذو الجلال کے بارے میں بے خبر ہوں۔
میں مالٹاائیر پورٹ کے وی آئی پی لاونج میں بیٹھا ہو اتھا۔ اتنے میں ایک خوش پوش نوجوان آئے اور میری کرسی کے قریب فرش پر عقیدت مندانہ انداز میں بیٹھ گئے۔ انھوں نے اپنا نام مار کونی بتایا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے آپ کی کتاب گا ڈار ائزز اور دوسری کئی انگریزی کتا بیں پڑھی ہیں۔ ان کتابوں نے مجھ کو بہت متاثر کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ روم اورمالٹا میں بہت سے لوگ ہمارے مشن سے واقف ہیں اور ہماری کتابیں پڑھ چکے ہیں۔ اس علاقہ میں الرسالہ مشن کو متعارف کرانے میں الجزائر یونیورسٹی کے استاد دکتور محمد السلیمانی کا بہت بڑا دخل ہے۔ وہ عربی کے علاوہ فرانسیسی اور اطالوی زبانیں جانتے ہیں۔
کا نفرنس کے منتظمین کا ہر کام اتنی منصوبہ بندی کے ساتھ ہورہا ہے کہ ہم جب مالٹا ائیر پورٹ پر پہنچے تو اسی وقت ہم کو کانفرنس کا بیگ، اس سے متعلق ضروری کا غذات اور مالٹاکے بارےمیں تعارفی لٹریچر سب کچھ ائیر پورٹ پر ہی دے دیا گیا۔
مالٹا میں میرا قیام ہالی ڈے ان کے کمرہ نمبر ۲۰۱ میں تھا۔مالٹا میں اہل اسلام کی ۲۲۰ سال تک حکومت تھی۔ یہاں کی زبان اور تہذیب پر عربوں کا غیر معمولی اثر ہے۔ مالٹی زبان میں پچاس فیصد سے زیادہ الفاظ عربی کے ہیں۔ اس کے بعد اطالوی اور انگریزی کے۔ مگر آج مالٹا مسلمانوں سے خالی ہے۔ عربی میں بطور مثل کہا جاتا ہے کہ فلان كمن يؤذن في مالطا یعنی فلاں شخص مالٹا میں اذان دے رہا ہے جہاں کوئی نماز پڑھنے والا نہیں۔
تاہم یہ مثل مجھے پسند نہیں آئی۔ اس میں دعوتی شعور کا فقدان نظر آتا ہے۔ ایک عرب عالم سے میں نے کہا کہ اذان کا تعلق صرف مسلمانوں سے نہیں ہے بلکہ دعوتی معنوں میں اس کا تعلق غیر مسلموں سے بھی ہے۔ اذان میں حي علی الصلاة بھی کہا جاتا ہے اور حي علی الفلاح بھی۔ ایک کلمہ کا تعلق اگر ایمان قبول کرنے والوں سے ہے تو دوسرے کا تعلق ان لوگوں سے ہے جنہوں نے ابھی ایمان قبول نہیں کیا۔ مسلمان ایک اذان سے واقف ہیں ، مگر وہ دوسری اذان سے واقف نہیں۔