معرفت حق
موجودہ زمانے میں بہت سے مسلمان ہیں جن کا حال یہ ہے کہ وہ انتہائی ذوق و شوق کے ساتھ حج کے لیے جائیں گے اور واپس آکر نہایت والہانہ اور عاشقانہ انداز میں حج کا سفر نامہ لکھ کر شائع کریں گے۔ دوسری طرف انھیں لوگوں کو آپ دیکھیں گے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ حقارت کا معاملہ کر رہے ہیں۔ وہ اس کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اس کے خلاف بے بنیاد الزام گھڑ کر اس کوزبان و قلم کے ذریعہ پھیلا رہے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو بندۂ مومن کی تحقیر کرتے ہیں۔ اور جب حرم مکی اور حرم مدنی کا ذکر ہو تو وہ غایت درجہ تکریم کے الفاظ بولتے ہیں۔ حالانکہ حدیث میں آیا ہے کہ مومن کا عزت و احترام کعبہ کے عزت و احترام سے بھی زیادہ ہے۔لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ مِنْ حُرْمَةِ هَذَا الْبَيْتِ(أخبار مكة – الفاكهي: 1523)
اس فرق کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب ان عاشقین مدینہ کی بے بصیرتی ہے۔ وہ حقائق ظاہری کو تو خوب دیکھتے ہیں مگر حقائق معنوی ان کو دکھائی نہیں دیتے۔ ان کو وہ اسلام نظر آتا ہے جو تاریخی عظمت ، مادی شوکت اور انسانوں کی بھیڑ کے ساتھ نمایاں ہو رہا ہو۔ اور جو اسلام ظواہر سے خالی ہو۔ جس کو جاننے کے لیے جو ہر شناسی اور معرفتِ باطنی کی صلاحیت درکار ہو۔ اس کے ادر اک سےوہ بے بہرہ رہتے ہیں۔
قدیم عرب کے جن لوگوں کو قرآن میں اندھا اور بہرہ بتایا گیا ان کا معاملہ یہی تھا۔ وہ حرم مکی کا تو خوب احترام کرتے تھے مگر انہوں نے رسول اور اصحاب رسول کی بے حرمتی کی۔ کیوں کہ حرم کی سطح پر جو دین تھا اس میں ان کو تاریخی عظمتیں دکھائی دے رہی تھیں۔ اس کے برعکس رسول اور اصحاب رسول کا دین ابھی تاریخی عظمتوں اور مادی شوکتوں سے خالی تھا۔ اس وقت رسول والے دین کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے جو ہر شناسی کی صلاحیت درکار تھی جس سے وہ محروم تھے۔ چناں چہ انہیں اندھا اور بہر اقرار دے دیا گیا۔
ایمان معرفتِ حق کا نام ہے۔ مومن وہ جوہر شناس انسان ہے جو سچائی کو اس کے بے آمیز روپ میں دیکھے ، جو ظواہر سے بلند ہو کر حقائق کو دریافت کر لے۔