تحریک کی مخالفت
مردہ سانپ کہیں پڑا ہوا ہو تو کوئی اس کو مارنے کی ضرورت نہیں سمجھے گا۔ لیکن اگر کہیں زندہ سانپ نکل آئے تو تمام لوگ اس کو مارنے کے لیے حرکت میں آجاتے ہیں۔ یہی بلا تشبیہ تحریکوں کا معاملہ ہے۔ تحریک کی مخالفت تحریک کی زندگی کا ثبوت ہے۔ بے جان تحریک کی مخالفت کے لیے کوئی کھڑا نہیں ہوتا۔ مگر کوئی جاندار تحریک برپا ہو تو ہر طرف اس کی مخالفت کرنے والے اٹھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔
ایک حقیقی تحریک یہ کرتی ہے کہ وہ وقت کے تمام ان لوگوں کو بے نقاب کر دیتی ہے جو اپنے آپ کو جھوٹ کے پردوں میں چھپائے ہوئے تھے۔ کوئی اپنے جہل پر علم کا مصنوعی پر دہ ڈالے ہوئے ہوتا ہے۔ کوئی اپنی بے دانشی کے اوپر دانش مندی کا فرضی مینار کھڑا کیے ہوئے ہوتا ہے۔ کوئی صرف پیچھے کی صف میں بیٹھنے کے قابل ہوتا ہے مگر وہ حالات سے فائدہ اٹھا کر آگے کی گدی پر قابض ہو جاتا ہے۔ کوئی حقیقۃ ًمخرّبِ قوم ہوتا ہے مگر خوب صورت الفاظ بول کر اپنے لیے معمار ِقوم کا خطاب حاصل کر لیتا ہے۔
ایک زندہ تحریک ایسے لوگوں کے لیے ایسی ہی ہے جیسے سونے کے ملمع کیے ہوئے برتن کےلیے آگ کی آنچ۔ آنچ پر آتے ہی اوپر کا ملمع اڑ جاتا ہے۔ اسی طرح ایک زندہ تحریک ایسے تمام لوگوں کو اکسپوز (expose) کر دیتی ہے جن کی اصل کچھ ہو اور ظاہری طور پر وہ کچھ بنے ہوئے ہوں۔
کسی تحریک کی مخالفت اس کی زندگی کا اعتراف ہے۔ تحریک کی مخالفت اس بات کاثبوت ہے کہ وہ باطل پر ضرب لگانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔
مخالفت کی دو قسمیں ہیں۔ ایک ہے اس کی مطلوب قسم۔ یہ حق کے دفاع کے لیے عمل میں لائی جاتی ہے۔ مخالفت کی دوسری غیر مطلوب قسم وہ ہے جو خود اپنی ذات کے دفاع میں کی جاتی ہے۔ آدمی دیکھتا ہے کہ فلاں تحریک اس کو بے زمین کر رہی ہے۔ اس لیے وہ اس کا مخالف بن کر کھڑا ہو جاتاہے۔ یا خود پردہ میں رہ کر کچھ دوسرے لوگوں کو اکسا دیتا ہے کہ وہ اس کی مخالفت کی مہم چلائیں۔ پہلی قسم کی مخالفت پیغمبروں کی سنت ہے اور دوسرے قسم کی مخالفت صرف شیطان کی سنت۔