تشکیل حیات
ایک مبصر نے جدید سائنسی تہذیب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کے اندر فکری استحکام نہیں۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ بطلیموس کی جگہ کو پر نیکس ظاہر ہوا۔ پھر کوپرنیکس کی جگہ نیوٹن نے لے لی۔ اس کے بعدنیوٹن کی جگہ آئن اسٹائن آگیا:
Copernicus replaced Ptolemy, Newton replaced Copernicus, and Einstein replaced Newton.
موجودہ دور کے کلچر کو کلچر آف ٹکنا لوجی کہا جاتا ہے مگر یہ ایک متضاد ترکیب ہے۔ کلچر اپنی ذات میں دو امیت چاہتا ہے۔ مگر سائنس یا ٹکنالوجی دوامی صفت سے خالی ہیں۔ ایسی حالت میں ٹکنالوجی کی بنیاد پر بننے والا کلچر ہمیشہ غیرمستحکم رہے گا۔ وہ انسانی فطرت کے ابدی تقاضے کو پورا نہیں کرسکتا۔
ٹکنالوجی انسان کی خادم ہے ، وہ انسانی کلچر کی بنیاد نہیں۔ ٹکنالوجی صرف یہ کر سکتی ہے کہ وہ زراعت کو ہل کے دور سے نکال کر ٹریکٹر کے دور میں پہنچا دے، یا سفر کو بیل گاڑی کے دور سے آگے بڑھا کر ہوائی جہاز کے دور میں داخل کر دے۔ لیکن ٹکنالوجی حقیقی معنوں میں انسان کو کلچریا تہذیب نہیں دے سکتی۔ٹکنالوجی انسان کی خادم بن سکتی ہے ، مگر اس سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ انسان کو مذہب حیات فراہم کرنے کا کام انجام دے گی۔
ٹکنالوجی ، ایک لفظ میں ، خادم حیات ہے اور کلچر مذہب حیات۔ٹکنا لوجی اگر زندگی کی سواری ہے تو کلچر انسان کی منزل متعین کرنے والا ہے۔ سواری جیسی چیزوں کے معاملے میں تبدیلی سے کوئی حقیقی نقصان نہیں۔ لیکن اگر کلچر کی بنیادوں میں تبدیلی کی جانے لگے تو پوری انسانی زندگی اپنی معنویت کھو دے گی۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ ٹکنا لوجی کو زندگی کا خدمت گزار بنایا جائے۔ اور مذہب کو کلچر کی بنیاد کے طور پر اختیار کیا جائے۔ پھر جب یہ دیکھا جائے کہ تمام مذاہب میں محفوظ اور ثابت شدہ مذہب صرف اسلام ہے تو یہ بات بھی طے ہو جاتی ہے کہ کلچر کے اعتبار سے زندگی کی تشکیل کے لیے واحد بنیاد صرف اسلام ہے۔ اسلام انسانی زندگی کی تشکیل کے لیے ایسی مستحکم بنیاد فراہم کرتا ہے جس میں تبدیلی کا کوئی سوال نہیں۔