مخالفت بے اثر
۱۳فروری ۱۹۹۲ کو جناب عبد القادربٹ ایم اے (ڈوڈہ ، کشمیر)سے دہلی میں ملاقات ہوئی۔ وہ الرسالہ کے مستقل قاری ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹر غلام نبی میر (نالی بونجوہ ، ڈوڈہ ، کشمیر)کو پچھلے سال انھوں نے الرسالہ دکھایا۔ وہ کچھ لوگوں کے مخالفانہ پر وپگنڈے سے متاثر تھے۔ چناں چہ انھوں نے کہا کہ اس کا لکھنے والا انڈیا گورنمنٹ کا پیڈ ایجنٹ (paid agent) ہے۔ وہ مسلمانوں کوبزدلی سکھاتاہے۔ ایسے رسالے کو پڑھنا مجھے پسند نہیں۔
تاہم عبد القادر صاحب ان سے الجھے نہیں۔ اس سخت تبصرے کے باوجود وہ ان کو الرسالہ دیتے رہے۔ اس طرح تقریباً چھ مہینے گزر گئے۔ اب جب کہ عبد القادر صاحب دہلی آرہے تھے۔ ڈاکٹر غلام نبی صاحب نے ان سے کہا کہ تم دہلی جا رہے ہو ، وہاں الرسالہ کے دفتر میں میرا نام خریداری کے رجسٹر میں درج کرا دو۔ تا کہ الرسالہ برابر مجھ کو ملتار ہے۔ میں اس کا ایک شمارہ بھی کھونا نہیں چاہتا۔
چند مہینے الرسالہ پڑھنے کے بعد ان کا ذہن بالکل صاف ہو گیا۔ ان کے تمام شبہات ختم ہو گئے۔ حتی کہ الرسالہ ان کا پسندیدہ پرچہ بن گیا۔ انھوں نے اپنی کشمیری زبان میں الرسالہ کے بارے میں اپنا تاثر بتاتے ہوئے کہا : یہ چھو واحد طریق یس مسلمانن سہی رہنمائی کرن چھو۔ لگمت واقعی چھٹی یم رسالہ پڑھنس لایکھ(یہی واحد طریقہ ہے جس سے کہ مسلمانوں کو صحیح رہنمائی کی جارہی ہے۔ واقعی یہ رسالہ پڑھنے کے لائق ہے)
ڈاکٹر غلام میر کا ابتدائی تاثر الرسالہ کے کچھ مخالفین کے پر وپگنڈوں کی وجہ سے تھا۔ مگر جب انھوں نے خود با قاعدہ طور پر الرسالہ کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ سب محض جھوٹے پروپگنڈے ہیں۔ الرسالہ تمام تر قرآن و سنت کی بنیاد پر چلایا جارہا ہے۔ اس میں عین اسلام کی بات پیش کی جارہی ہے–––––اس طرح کے ہزاروں آدمی ہیں جو ابتداءًغلط پروپگنڈے سے متاثر تھے مگر براہ راست واقفیت کے بعد وہ الرسالہ کے گرویدہ ہوگئے۔
سورج کو تاریک بتانے والے لوگ ممکن ہے کہ کچھ اندھوں کو غلط فہمی میں ڈال دیں۔ مگر وہ آنکھ والوں کو بدظن کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔