داعیانہ صبر
قرآن میں انذار و تبشیر اور دعوت الی اللہ کا حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اور اللہ کے لیےصبر کرو۔ ولربك فاصبر (المدثر:۷)
اس آیت میں جس صبر کا ذکر ہے اس سے مراد داعیانہ صبر ہے۔ یعنی دعوت کی راہ میں مدعو کی طرف سے جو زیادتی یا اشتعال انگیزی کی جائے اس پر بے صبر نہ ہو جاؤ ، بلکہ مدعو کی روش سے قطعِ نظر کرتے ہوئے یک طرفہ طور پر اپنے آپ کو صبر و اعراض کے رویہ پر قائم رکھو۔
اس صبر کو اللہ کے لیے کیا جانے والا صبر اس لیے فرمایا کہ وہ تمام تر اللہ کے منصوبے کی تکمیل کے لیے ہوتا ہے۔ وہ اس لیے کیا جاتا ہے کہ داعی کے غیر صابر انہ جواب سے مدعو بدک نہ جائے اور داعی کی بات پر دھیان دینے کے لیے تیار نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو موجودہ دنیا میں آزمائش کے لیے رکھا ہے۔ یہاں کی محدود مدت میں انسان جیسا عمل کرے گا اسی کے مطابق اگلی لا محدود زندگی میں اس کے ساتھ انعام یا سزا کا معاملہ کیا جائے گا۔ یہ ایک بے حد نازک صورت حال ہے، کیونکہ انسان کو اگر زندگی کی اس امتحانی نوعیت سے پوری طرح باخبر نہ کیا جائے تو وہ قیامت کے دن کہہ سکتا ہے کہ ہمیں تو اس کی خبر ہی نہ تھی، ایسی حالت میں کیوں ہم کو پکڑا جاتا ہے اور ہمارا حساب لیا جاتا ہے۔
یہ ایک بے حد نازک معاملہ ہے۔ اگر لوگوں کو پوری طرح باخبر کر دیا جائے تو حجت لوگوں کے اوپر چلی جاتی ہے۔ اور اگر لوگوں کو خبردارنہ کیا جائے تو حجت، اللہ کی طرف لوٹ جاتی ہے (نساء: ۱۶۵) چونکہ دعوت الی اللہ کا عمل اس حجت کو اللہ سے ہٹاتا ہے اس لیے اللہ نے اس کو اپنا کام فرمایا ہے اور اس کے لیے صبر کرنے کو اللہ کے لیے صبر کر نا قرار دیا ہے۔
داعی گر وہ اگرمد عو کی زیادتیوں پر صبر کر کے اپنا د عوتی عمل جاری رکھے۔ تو اس کا یہ صبر اللہ کے لیے کیا جانے والا صبرہوگا۔ اس کا اللہ کے یہاں بہت بڑا اجر ہے۔ اس کے برعکس اگر داعی مدعو کی زیادتیوں پر مشتعل ہو جائے تو اس کے متعلق کہا جائے گا کہ اس کو اللہ کے لیے صبر کرنے کا حکم دیا گیا تھا مگر وہ اللہ کے لیے صبر کرنے پر راضی نہ ہوا۔