دعا بھی عمل
ابن اسحاق نے روایت کیا ہے کہ مکی دور میں قبیلۂ دوس کے ایک شخص طفیل بن عمرو الدوسی آپ کےپاس آئے۔ انھوں نے آپ سے قرآن کو سنا اور پھر اسلام قبول کر لیا۔ اس کے بعد آپ کی اجازت سےوہ اپنے قبیلہ میں واپس گئے اور ان کو اسلام کی طرف بلانا شروع کیا مگر قبیلہ کے لوگوں نے انکار اور سرکشی کارویہ اختیار کیا۔ طفیل بن عمرو دوبارہ آپ کے پاس آئے اور کہا کہ قبیلۂ دوس کے لوگ حق کے معاملے میں سرکشی کر رہے ہیں۔ آپ ان کے خلاف بد دعا کیجیے آپ نے اس کے برعکس ہاتھ اٹھایا اور ان کے حق میں دعا کرنا شروع کیا : اے اللہ تو قبیلۂ دوس کو ہدایت دے، اے اللہ تو قبیلۂ دوس کو ہدایت دے۔ پھر آپ نے طفیل بن عمرو سے کہا کہ اپنے قبیلہ کی طرف واپس جاؤ اور اس کو دوبارہ دعوت دو۔ اور اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرو (سیرت ابن ہشام ، ج ۱،ص ۲۰۹)
یہ دعا اور یہ نصیحت کوئی سادہ سی بات نہیں تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ آپ نے طفیل بن عمرو کو منفی نفسیات سے نکال کر مثبت نفسیات کی طرف موڑ دیا۔ جن لوگوں کے بارے میں ان کے اندر بیزاری کا جذبہ پیدا ہو گیا تھا ان کے لیے ان کے اندر خیر خواہی کا جذبہ بیدار کر دیا۔ جس معاملے میں طفیل بن عمرو صرف حال کو دیکھ رہے تھے۔ اس معاملے میں آپ نے ان کے اندر مستقبل کو دیکھنے کی نظر پیدا کر دی۔
دعا ایک اعتبار سے خدا سے مانگنا ہے۔ اور دوسرے اعتبار سے وہ اپنی نفسیات کی صالح تربیت ہے۔ وہ اپنے اندر ربانی طاقت کو بیدار کرنا ہے۔ طفیل بن عمرو جب اس نئی نفسیات کے ساتھ دوبارہ اپنے قبیلے میں گئے تو وہ گویا ایک نئے انسان بن چکے تھے۔ اب وہ اس قابل تھے کہ زیادہ موثر انداز میں حق کی دعوت ان لوگوں کے سامنے پیش کر سکیں۔ اس کے بعد نتیجہ ظاہر تھا۔ پورے قبیلے نے اسلام قبول کر لیا۔
جس سوسائٹی میں لوگ ایک دوسرے کے اتنے خیر خواہ بن جائیں کہ وہ ایک دوسرے کے لیے خدا سے دعا کرنے لگیں وہاں اس کا لازمی فائدہ یہ ہوگا کہ پوری سوسائٹی میں مثبت نفسیات کو فروغ حاصل ہو گا، اور بلاشبہ بہتر سوسائٹی بنانے کے لیے سب سے زیادہ ضروری جو چیز مطلوب ہے وہ یہی مثبت نفسیات ہے۔