جڑ کی بات
۱۸ اپریل ۱۹۸۹ کا واقعہ ہے۔ میری ملاقات ڈاکٹر عبد السلام صاحب سے ہوئی۔ وہ پچھلے ۲۵ سال سے امریکہ (4740-267-312Tel)میں رہتے ہیں۔ وہاں وہ شکاگو کی نارتھ ایسٹرن یونی ورسٹی میں میتھمیٹکس کے پروفیسر ہیں۔
سلمان رشدی کے مسئلہ پر گفتگو کے دوران انھوں نے بتایا کہ مارچ ۱۹۸۹ میں ان کی یونیورسٹی میں "رشدی افیئر "پر ایک سمینار کیا گیا۔ یونی ورسٹی کے مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے اس سمینار کا انعقاد کیا تھا۔ اس سلسلے میں انھوں نے جو کچھ کہا ، اس کا ایک جزء ان کے الفاظ میں یہ تھا :
A student in the meeting exclaimed that Rushdie should be killed for his crime. I reminded him that everybody should be serious when speaking. If he really believed that it is his duty to kill Rushdie, by now he would have been in London, and not here talking about it.
ایک مسلمان طالب علم نے اس میٹنگ میں پر جوش طور پر کہا کہ رشدی کوشتم رسول کے جرم میں قتل کرنا ضروری ہے۔ میں نے طالب علم کو یاد دلایا کہ ہر آدمی کو اپنے قول میں سنجیدہ ہونا چاہیے۔ اگر واقعۃ ًوہ یقین رکھتا ہے کہ یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ رشدی کو قتل کر دے تو اس وقت اُس کو لندن میں ہونا چاہیے نہ کہ وہ یہاں رہ کر صرف قتل کی باتیں کر رہا ہو۔
یہ واقعہ علامتی طور پر ایک بہت بڑی خرابی کو بتاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقہ کی وہ کون سی کمزوری ہے جس نے ان کا یہ حال کر رکھا ہے کہ ان کے یہاں قول کے ہنگامے تو احتساب عالم کی سطح پر جاری ہیں۔ مگر عمل کی سطح پر ابھی تک احیاء ملت کی ابتدائی بنیاد بھی قائم نہ کی جاسکی۔
یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ عام طور پر اسی کمزوری میں مبتلا ہے۔ وہ کہتا ہے مگر وہ کرتا نہیں۔ وہ قوال ہے مگر وہ فعال نہیں۔ مگر جس قول کے ساتھ عمل شامل نہ ہو وہ گناہ ہے نہ کہ کوئی مطلوب عمل۔