درست حل
ٹائمس آف انڈیا (۷جنوری ۱۹۹۲) میں مسٹر نانی اے پالکھی والا کا ایک آرٹیکل چھپا ہے۔ اس کاعنوان ہے–––– ٹکراؤ سےایکتا تک:
From confrontation to integration
اس آرٹیکل کا خلاصہ یہ ہے کہ ہندستان کے موجودہ فرقہ وارانہ اختلافات کا حل تمام مذاہب کے اتحاد (harmony of religions) کا نظریہ ہے جو ہندو ازم کی اصل بنیاد ہے۔ اور جس کو شنکر اچاریہ اور دوسرے لوگوں نے پیش کیا ہے۔
مگر صحیح بات یہ ہے کہ مذاہب کے درمیان رواداری کا نظریہ ہمارے مسئلہ کا حل ہے نہ کہ مذاہب کے درمیان اتحاد کا نظریہ۔ ایک لفظ میں ، ہار منی آف ریلیجنز نہیں بلکہ ہارمنی بٹوین کمیونیٹیز وہ چیز ہے جو ملک میں یک جہتی اور ایکتا کا ماحول پیدا کرسکتی ہے۔
مذہب کے دائرے سے باہر آج بھی اسی اصول پر سماج کا پورانظام قائم ہے۔ ایک گھریا ایک کمیونٹی کے افراد دنیوی معاملات میں الگ الگ ذوق رکھتے ہیں۔ اسی طرح ملک میں مختلف سیاسی پارٹیاں ہیں۔ ہر ایک کا سیاسی نقطۂ نظر الگ الگ ہے۔ اس کے باوجود سب مل کر رہتے ہیں۔ یہ ملاپ فرق کو مٹا کر قائم نہیں ہوا ہے بلکہ فرق کو برداشت کرنے پر قائم ہوا ہے۔
ٹھیک یہی تدبیر مذہب کے معاملےمیں بھی کارآمد ہے۔ یہاں بھی اس کی ضرورت نہیں کہ مذہبوں کے فرق کو مٹایا جائے یا یہ ثابت کیا جائے کہ ایک مذہب اور دوسرے مذہب میں کوئی فرق نہیں۔ اس قسم کی غیر ضروری کوشش کے بجائے کرنے کا کام یہ ہے کہ لوگوں میں رواداری (tolerance) کا مزاج پیدا کیا جائے۔ دوسرے شعبوں میں رواداری کی بنیاد پر اتحاد قائم ہے۔ اسی تجربےکوہمیں مذہب کے دائرے میں بھی اختیار کرنا ہے۔
مذاہب کی وحدت کا نظریہ نہ فطری ہے اور نہ قابل عمل۔ جب کہ اہلِ مذاہب کے درمیان رواداری کا نظریہ فطری بھی ہے اور قابل ِعمل بھی۔ عقل مندی یہ ہے کہ بے فائدہ کوشش سے بچا جائے اور وہ کوشش کی جائے جس سے مطلوبہ نتیجہ نکل سکتا ہو۔