اس کا سبب

  قدیم زمانے  میں جن لوگوں نے پیغمبروں کی مخالفت کی ، انھوں نے لوگوں کو دو قسموں میں بانٹ رکھا تھا۔ اراذل (ہود :۲۷) اور اعاظم (الزخرف: ۳۱)۔ ان کی تقسیم میں جو لوگ اراذل تھے انھیں میں سے کچھ افراد نے پیغمبروں کا ساتھ دیا۔ اور جن لوگوں کو قوم نے اعاظم کا درجہ دے رکھا تھا، وہ پیغمبروں کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہ ہوئے۔

مگر بات صرف اتنی ہی نہ تھی۔ مزید ان کا حال یہ تھا کہ اعاظم کی صف کا کوئی آدمی اگر پیغمبروں کو مان کر ان کا ساتھی بن جاتا تو فوراً ہی وہ قوم کی نظروں سے گر جاتا ، وہ اپنی عظیم ہونے کی حیثیت کو کھو دیتا تھا۔ مثال کے طور پر ابو بکر بن ابی قحافہ مکہ کے گروہ اعاظم سے تعلق رکھتے تھے مگر جب وہ پیغمبر کے ساتھی بن گئے تو مخالفین نے ان کو مجنون بن ابی قحافہ کہنا شروع کر دیا۔ اسی طرح عبد اللہ بن سلام یہودیوں کے بڑے عالم تھے ، مگر جب انھوں نے آپ کا ساتھ دیا تو یہودیوں نے کہا کہ وہ جاہل بن سلام ہیں۔ وغیرہ قدیم مکہ کے لوگ مکہ کے ولید بن مغیرہ اور طائف کے ابو مسعود کو نعوذ باللہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں عظیم سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ اللہ کو اگر اپنی کتاب اتارنا تھا تو ان اعاظم کے اوپر اس کو کیوں نہیں اتارا (الزخرف: ۳۱   )

ان کی اس سوچ کا سبب کیا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک غیر رواجی مذہب لے کر اٹھے تھے۔ اور ان کے اپنے سرداروں کا معاملہ یہ تھا کہ وہ وقت کے مروجہ مذہب کے نمائندہ بنے ہوئے تھے۔ رسول اللہ کا مذہب اس وقت ایک نیا مذہب تھا اور اہل مکہ کا مذہب قدیم مذہب۔ رسول اللہ کے مذہب کی پشت پر ابھی صرف دلیل کی طاقت تھی ، جب کہ اہل مکہ کے مذہب کی پشت پر سینکڑوں سال کی روایات کا وزن شامل تھا۔ چناں چہ ایک فریق انھیں مذہب اکابر پر دکھائی دیتا تھا اور دوسرا فریق مذہب اصاغر پر۔

 انسان کا یہ مزاج ہے کہ قدیم ،اس کی نظر میں عظیم بن جاتا ہے۔ یہی انسانی مزاج تھا جس نے مذکورہ بالا مسئلہ پیدا کیا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom