نظریاتی خلا

۱۹۹۱ کےخاتمے کے ساتھ سوویت یونین کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ اس سیاسی خاتمے کے ساتھ اشتراکیت (کمیونزم) کا فکری سحر بھی ختم ہوگیا۔ فکری سحر کے خاتمے کی مختلف علامتوں میں سے ایک عبرت انگیز علامت یہ ہے کہ ولادیمیر لینن کے دیو قامت مجسمے جو اس سے پہلے اشترا کی شہریوں کو اپنے چھوٹے ہونے کا احساس دلاتے تھے ، اب وہ انھیں اشترا کی شہریوں کے ہاتھوں ذلت کے ساتھ گرائے جارہے ہیں۔

 ۱۹۹۱ کے خاتمے کے مہینوں میں ہر جگہ اسی کا چرچا تھا۔ اس زمانے  میں ہر اخبار اور ہر میگزین میں ایسے مضامین آرہے تھے جن کا عنوان ہوتا تھا––––– سوویت یونین کا انہدام (The collapse of Soviet Union)

 اس کے بعد ہر طرف یہ کہا جانے لگا کہ اب دو قطبی دنیا (bi-polar world) کا دور ختم ہو گیا اور اب ایک قطبی دنیا (uni-polar world) کا دور شروع ہو چکا ہے۔ یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ ۹ جنوری ۱۹۹۲ کے اخبارات یہ خبر لائے کہ صدر امریکہ مسٹر جارج بش ٹوکیو میں ایک اسٹیٹ ڈنر پر تھے کہ وہ اپنی کرسی سے گر پڑے۔ ٹائمس آف انڈ یا(۹جنوری ۱۹۹۲) کی سرخی کے الفاظ یہ تھے :

Bush collapses at Tokyo reception.

راقم الحروف کا خیال ہے کہ پہلا انہدام اگر حقیقی تھا تو دوسرا انہدام علامتی ہے۔ سوویت یونین عملاً منہدم ہو چکا۔ امریکہ بھی امکانی طور پر اپنے انہدام کے قریب ہے۔ جارج بش کا گر نا امریکہ کے گرنے کی علامتی پیشین گوئی ہے۔

ایک مبصر نے بجا طور پر لکھا ہے کہ تقریبا ًسو سال پہلے سابق روسی وزیر اعظم خرو شچیف نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ کمیونسٹ سرمایہ داری نظام کو دفن کر دیں گے :

Communists would bury capitalism.

روس میں کمیونزم کا خاتمہ :لینن کا مجسمہ زمین پر گرا ہوا ہے۔(فوٹو)

 مگر کیمونسٹ نظام خود اپنے داخلی تضادات (inner contradictions) کا شکار ہو کر منہدم ہوگیا۔ اب دوسرے سپر پاور امریکہ کے لیے متحدہ یورپ اور جاپان زبر دست اقتصادی خطرہ بن کر ابھرے ہیں۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جو انجام سرخ سپر پاور کا ہو چکا ہے وہی انجام سفید سپر پاور کا آئندہ ہونےوالا ہے۔

 انسان بنیادی طور پر ایک تو جیہہ پسند مخلوق ہے۔ وہ لازمی طور پر ایک آئیڈیا لوجی (نظریہ) چاہتا ہے جس کے ذریعہ وہ کائنات کی توجیہہ کر ے۔ جس کے ذریعہ وہ یہ متعین کر سکے کہ وہ کیا ہے اورتاریخ میں اس کا مقام کیا ہے۔ اس قسم کی ایک آئیڈیا لوجی کے بغیر آدمی زندہ نہیں رہ سکتا۔

 امریکہ کے پاس انسان کو دینے کے لیے اس قسم کی کوئی آئیڈیا لوجی نہیں۔ اس کا واحد ایڈ وانٹج یہ ہے کہ اس کے پاس ایک قابلِ عمل معاشی ڈھانچہ (workable system) ہے۔ سوویت یونین کا معاشی ڈھانچہ اس کے مقابلے میں ناقابل عمل (unworkable) تھا۔ اور یہی اصلاً اس کے انہدام سبب بنا۔

 تاہم سوویت یونین کے پاس ایک آئیڈیا لوجی تھی۔ یہ اگر چہ ایک جھوٹی آئیڈیا لوجی (false ideology) تھی۔ مگر اس کے ذریعہ انسان کو ایک فرضی تسکین حاصل تھی کہ وہ اس پوزیشن میں ہے کہ زندگی اور کائنات کی توجیہہ کر سکے۔ سوویت یونین کے انہدام سے یہ بھرم ختم ہو گیا۔

 ٹائمس آف انڈیا (۱۲ جنوری ۱۹۹۲) میں ایک تجزیہ چھپا ہے ، اس کا عنوان ہے–––––سوویت یونین کے انہدام کے بعد:

The aftermath of the Soviet collapse

تجزیہ نگار نے بجا طور پر لکھا ہے کہ سوویت یونین کا انہدام سادہ طور پر صرف ایک ایمپائر کا انہدام نہیں۔ یہ در حقیقت جدید انسان کے سوچنے کے ڈھانچہ (structure of thinking) میں بنیادی تبدیلی پیدا کرنے والا ہے۔ یہ تاریخ کے عمل (course of history) کے بارے  میں ہمارے نقطۂ نظر (outlook) کو بدل دینے والا واقعہ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اشتراکی ایمپائر کے انہدام کے بعد عالمی سطح پر ایک نظر یاتی خلا (ideological vacuum) پیدا ہو گیا ہے۔ اب دنیا کے سامنے عملاً کوئی نظریۂ حیات سرے سے موجود ہی نہیں۔

سوویت یونین کا عملی انہدام اور امریکہ کا امکانی انہدام اب اس درجہ کو پہنچ رہا ہے جس کو ایک مغربی عالم نے جدید تہذیب کا انہدام (collapse of civilization) سے تعبیر کیا ہے۔ انسانی دنیا میں عالم گیر نظریاتی خلا کا دور آچکا ہے یا کم از کم ، وہ بہت جلد آنے والا ہے۔

 اس صورت حال کے پیش نظر ، ٹائمس آف انڈیا کے مذکورہ تجزیہ نگار نے اپنا مضمون ان الفاظ پر ختم کیا ہے کہ اشتراکیت کو گرہن لگنے کے بعد لازمی ہے کہ کوئی متبادل نظر یہ اٹھے جوان مسائل کا حل بتائے جو آج انسانیت کو گھیرے ہوئے ہیں :

The ideological vacuum left by the eclipse of socialism is bound to lead. to alternative ideological formulations which would assume new relevance in the context of the pressing problems and challenges faced by humanity today.

یہاں خود حالات میں وہ اشارہ موجود ہے جو بتاتا ہے کہ وہ متبادل نظر یہ کون سا ہو سکتا ہے جو انسانیت کو اس کی مطلوب چیز دے سکے۔ سوویت یونین میں بسنے والے انسان کو بیک وقت دو تلخ تجربے ہوئے۔ ایک ، کمیونسٹ ڈکٹیٹر شپ کی طرف سے پیش آنے والا تشد د۔ دوسرا، مذہب کو اختیار کرنے کے جرم میں مسلسل تعذیب۔ سوویت انسان نے تشدد کی بنا پر کمیونزم کو چھوڑ دیا۔ مگر اسی تشدد کے باوجود وہ مذہب کو چھوڑنے پر راضی نہ ہوا۔

مذہب انسان کی فطری طلب ہے، اور جو چیز فطری طلب ہو اس کو چھوڑنا انسان کے لیےممکن نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom