خدائی منصوبے کے خلاف
زندگی کیا ہے اور انسان کی کامیابی کس چیز میں ہے ، ان سوالات کو ایک لفظ میں نوعیت حیات کہا جا سکتا ہے۔ اسلام اسی نوعیت حیات کا خدائی علم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی منشا ہے کہ نوعیت حیات کا یہ علم ہمیشہ تمام انسانوں تک پہنچتا رہے۔
اس تبلیغی عمل کو مستحکم اور یقینی بنانے کے لیے اللہ تعالٰی نے انسانی تاریخ میں ایسے انقلابات برپا کیے جس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تاریخی طور پر ایک مسلم نبوت بن گئی۔ قرآن ایک ایسی محفوظ کتاب بن گیا جس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہ کی جاسکے۔ اسلام کی بنیاد پر ایک مکمل تاریخ ظہور میں لائی گئی۔ ساری دنیا میں مسلمان اتنی بڑی تعداد میں پھیلا دیے گئے کہ آج دنیا کی آبادی میں ہر پانچ آدمی میں سے ایک آدمی مسلمان ہے۔ وغیرہ
اس قسم کے وسیع انتظامات اس بات کی یقینی ضمانت تھے کہ اسلام کا پیغام مسلسل تمام اہل عالم تک پہنچتا ر ہے۔ اور ماضی میں بلاشبہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ مگر موجودہ ز مانے میں جو مسلم رہنما اٹھے ، ان کی ایک غلطی نے سارے دعوتی انتظامات کو عملاً معطل کر دیا۔ وہ غلطی یہ تھی کہ ان رہنماؤں نے اپنی خود ساختہ تحریکوں کے ذریعہ اسلام کو جنگ جو مذہب کا روپ دے دیا۔
کہیں سیاسی آزادی حاصل کرنے کے نام پر، کہیں اسلامی حکومت قائم کرنے کے نام پر، کہیں سرخ یا سفید سامراج کے ظلم کو مٹانے کے نام پر، کہیں صلیبی اور صہیونی تدخل کو ختم کرنے کےنام پر، کہیں ملکی حقوق اور ملی تحفظ حاصل کرنے کے نام پر ، غرض کسی نہ کسی نام پر ساری دنیا کے مسلمان ٹکراؤ میں اور لڑائی میں مصروف کر دیے گئے۔ اور کہا گیا کہ یہ اسلامی جہاد ہے۔
ان بے معنی لڑائیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں اور دوسری قوموں کے درمیان معتدل تعلقات باقی نہ رہے۔ مسلمانوں اور دوسری قوموں کے درمیان معتدل تعلقات ہوں تو اسلام کا تعارف اپنے آپ ہوتا رہتا ہے۔ مگر جب دونوں میں معتدل تعلقات باقی نہ رہیں تو مسلمان اور ان کا دین دونوں ہی نفرت کا موضوع بن جاتے ہیں، اور نفرت اور تناؤ کی فضا میں اسلام کا دعوتی عمل جاری رہنا ممکن نہیں۔ یہ صورت حال خدا کے منصوبہ میں مداخلت کے ہم معنی ہے۔