نا امیدی
ہوم افیرس کے منسٹر آف اسٹیٹ ایم ایم جیکب نے راجیہ میں بتایا کہ یکم جنوری ۱۹۸۸سے لے کر ۳۰ جون ۱۹۹۱ تک ساڑھے تین سال میں صرف دہلی میں جن لوگوں نے خود کشی کی ان کی تعداد ۲۷۰۰ہے خود کشی کے اقدام کا بنیادی سبب انتہائی مایوسی (extreme frustration) تھا (ہندستان ٹائمس یکم اگست ۱۹۹۱)
واقعات بتاتے ہیں کہ خود کشی کرنے والے زیادہ تر غیر معذور لوگ ہوتے ہیں۔ بہت ہی کم ایساہوتا ہے کہ کوئی معذور اور لاچار آدمی اپنے آپ کو ہلاک کر کے خود کشی کرلے۔
ایک شخص نے بی اے پاس کر لیا تھا مگر ایم اے میں اس کو داخلہ نہیں ملا اس لیے اس نے خود کشی کرلی۔ ایک شخص نے اپنی ڈگری کی تعلیم مکمل کرلی مگر اس کے بعد اس کو ملازمت نہیں ملی اس لیے اس نے خود کشی کر لی۔ ایک شخص کا پروموشن دس سال تک رکا رہا اس نے اپنے آپ کو ہلاک کر لیا۔ ایک شخص اپنی پسندیدہ عورت سے شادی نہ کر سکا اس لیے اس نے زہر کھا کر اپنا خاتمہ کر لیا۔ وغیرہ۔
خود کشی کرنے والے افراد کا معاملہ زیادہ تر یہ تھا کہ وہ تندرست تھے۔ ان کو کھانا کپڑا بھی مل رہا تھا۔ بقدرِ ضرورت اسبابِ حیات انہیں حاصل تھے۔ مگر وہ اپنی ایک مطلوب چیز کو پانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس بنا پر وہ شدید محرومی کا شکار ہو گئے اور خود کشی کا اقدام کر بیٹھے۔
اس دنیا میں سب سے بڑی چیز امید ہے۔ امید پر آدمی جیتا ہے اور اگر امید باقی نہ رہے تواس کو اپنی زندگی اتنی زیادہ بے معنی نظر آنے لگتی ہے کہ وہ خود اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاک کر لیتا ہے۔
مگر ان تمام لوگوں کی مشترک غلطی یہ ہے کہ انھوں نے اپنے حال کو دیکھا، مگر وہ اپنے مستقبل کونہ دیکھ سکے۔ کوئی آدمی حال میں اگر کم پائے ہوئے ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مستقبل میں بھی کم ہی پر باقی رہے گا ، اگر وہ اپنے وجود کو اور اپنے ملے ہوئے مواقع کو استعمال کرے تو عین ممکن ہے کہ آئندہ وہ ان تمام چیزوں کو پالے جن کو وہ اپنے آج کے حالات میں نہ پاسکا۔
حال پر نظر آدمی کو مایوس کرتی ہے۔لیکن مستقبل پر نظر اس کو حوصلہ مند انسان بنا دیتی ہے۔