مسئلے کا حل

مولانا سعید احمد اکبر آبادی (۱۹۸۵-۱۹۰۸) اپنی آخر عمرتک ماہنامہ برہان (دہلی) کے ایڈیٹر تھے۔انھوں نے ایک بار اپنے اداریہ کے صفحات میں لکھا تھا:

 "ہمارے عزیز دوست ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی جو معاشیات میں ڈاکٹر ہیں، وہاں مسلمان طلباء کی انجمن کی دعوت پر اسلام پر مختلف مراکز میں لکچر دینے کی غرض سے امریکہ گئے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں شکا گو سے ان کا ایک خط آیا ہے جس میں تحریر فرماتے ہیں: ہندوستان میں گزشتہ پچیس برس میں ہم نے (مسلمانوں نے) احتجاج کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ لیکن یہاں کے مسلمان مجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ اس مدت میں ہم نے کوئی تعمیری (positive) اور مثبت کام بھی کیا ہے ؟  اگر کیا ہے تو وہ کیا ہے ؟  یہ سن کر سخت شرمندگی ہوتی ہے، آپ از راہ کرم اس پر توجہ کیجیے۔ راقم الحروف نے اس کے جواب میں ڈاکٹر نجات اللہ صاحب کو لکھا ہے کہ آپ نے یہ وہی بات لکھی ہے جس کو میں شروع سے کہتا اور لکھتا چلا آرہا ہوں، لیکن افسوس، یہاں کے مسلمانوں میں اجتماعی اور قومی سطح پر مثبت اور تعمیری کام کرنے کا کوئی جذبہ ہی نہیں ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لیڈرشپ بالکل نکمی اور ناکارہ ہے، اس کے پاس نہ دل ہے نہ دماغ۔ ہواؤں پر اڑتی اور جلسوں جلوسوں پر جیتی ہے۔"

(برہان ، دہلی، اکتو بر۱۹۷۲)

ان سطروں کے لکھے اور چھپے ہوئے۲۰ سال ہو گئے۔ یہاں تک کہ وہ وقت قریب آگیا جبکہ" ۲۵ سال" کی کہانی کو"۵۰ سال" کی کہانی کا عنوان دیا جائے مگر وہی صورت حال بدستور ابھی تک باقی ہے۔ اس میں اضافہ کی نشاندہی تو کی جاسکتی ہے مگر اس میں کمی کی کوئی نشاندہی نہیں کی جاسکتی۔

 یہ بات بذات خود صحیح ہے کہ لیڈر شپ کے ناکارہ ہونے کی وجہ سے یہ صورت حال پیدا ہوتی ہے مگر یہاں دوبارہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے درمیان ایسے لوگ آخرلیڈر کیسے بن جاتے ہیں جوبا لکل   نکمے اور ناکارہ ہوں۔ ایسے لوگوں کو ملت کے کوڑا خانہ میں جگہ ملنی چاہیے نہ یہ کہ ملت کے قیادتی اسٹیج پرانھیں بٹھایا جائے۔

 اس کی وجہ مسلم سماج کی بے شعوری ہے۔ موجودہ زمانے  کے مسلمان بے شعوری کی سطح پر جی رہے ہیں وہ صحیح اور غلط میں تمیز نہیں کر پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ جو آدمی زیادہ جوشیلی تقریر کرتا ہے۔ جو بڑے بڑے الفاظ بولناجانتاہے۔ جو جھوٹی آرزوؤں اور فرضی خوش فہمیوں میں جینے کی خوراک فراہم کرتا ہے، اس کے پیچھے ان کی بھیڑ دوڑ پڑتی ہے۔ کیونکہ وہ اپنی بے شعوری کی بنا پر لفظ اور حقیقت میں فرق کرنے کی تمیز نہیں رکھتی۔

 ایسی حالت میں کرنے کا پہلا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کو باشعور بنا یا جائےجس دن مسلمان ایک با شعور گروہ بن جائیں گے اسی دن ناکارہ قیادت اپنی زمین کھو دے گی اور پھر وہ اپنے آپ ختم ہو کر رہ جائے گی نکمی قیادت کو ختم کرنا ہے تو مسلمانوں کے بے شعور پن کو ختم کیجیے۔ اس مسئلہ کا حل بالواسطہ طریق کارمیں ہے نہ کہ براہ راست طریق کار میں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہر آدمی کے لیے اس کی فطرت سب سے بڑی اور سب سے بہتر رہنما ہے۔ جھوٹے لیڈر آدمی کو اس کی فطرت کے راستہ سے ہٹاتے ہیں اگر یہ نام نہاد لیڈ ر سامنے نہ رہیں تو ہر آدمی کی فطرت جاگ اٹھے گی۔ اور جب فطرت زندہ اور بیدار ہو تو کسی رہنما کی کوئی ضرورت نہیں۔

مسلمانوں کے سلسلہ میں اس وقت کرنے کا اصل کام یہ نہیں ہے کہ یہ شکو ہ کیا جائے کہ ان کے درمیان تعمیری اور مثبت قسم کی لیڈر شپ نہیں ہے۔ بلکہ اصل کام یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر تعمیری اور مثبت ذہن بنایا جائے تاکہ ان کے درمیان تعمیری اور مثبت لیڈرشپ ابھر سکے۔

حدیث میں آیا ہے کہ : كَمَا تَكُونُونَ كَذَلِك ‌يُؤمر ‌عَلَيْكُم)مشكاة المصابيح(3717:۔ یعنی جیسے تم ہو گے ویسے ہی تمہارے لیڈر ہوں گے۔ موجودہ زمانے  میں جو غیر صحیح لیڈر شپ مسلمانوں کے اوپر مسلط ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ خود مسلمان کا مزاج غیر صحیح ہے۔ اگر مزاج صحیح ہو جائے تو ان کے در میان لیڈر شپ بھی صحیح قسم کی ابھرے گی۔ ہمارے کرنے کا اصل کام مزاج سازی یا ذہنی تعمیر ہے۔ بقیہ چیزیں جو ہم چاہتے ہیں وہ اسی کا نتیجہ ہیں۔ اس بنیادی کام کے بغیر ان کو حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom