زندہ قوم
جب اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان کی وفات (86ھ)ہوئی، تو اس کے لڑکے ہشام نے یہ شعر پڑھا:
فما کان قیس ہلکہ ہلک واحد ولکنہ بنیان قوم تہدما
قیس کی وفات ایک شخص کی وفات نہیں تھی، بلکہ اس کی وفات سے ایک پوری قوم کی بنیاد ہل گئی۔یہ سن کر الولید بن عبدالملک اموی نے کہا، چپ ہو جاؤ، کیوں کہ تم شیطان کی زبان سے بول رہے ہو (فإنک تتکلم بلسان شیطان)۔ تم نے یہ کیوں نہیں کہا جو اوس بن حجر نےکہا تھا:
إذا مقرم منا ذرا حد نابہ تخمط منا ناب آخر مقرم
جب ہم میں سے ایک سردار ہلاک ہوجاتا ہے، تواس کی جگہ دوسرا سردار آجاتا ہے۔ (الکامل فی التاریخ، بیروت، 1997، 3/532)۔ اسی بات کو ایک اور شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
إذا مات منا سید قام بعدہ لہ خلف یکفی السیادة بارع
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اسلام میں افراد کے لیےبڑے بڑے القاب کا طریقہ نہیں ہے۔ مثلاً آپ اگر ایک شخص کو قائد اکبر کا خطاب دے دیں تو شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ ذہن بنے گا کہ قائد اکبر تو وہی ایک آدمی تھا، اس کے مرنے کے بعد جو لوگ ہیں، سب قائد اصغر ہیں۔ اسی طرح آپ اپنے ایک شخص کو مفکرِ اعظم کا ٹائٹل دے دیں، تو شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ ذہن بنے گا کہ مفکر اعظم تو ایک ہی تھا، اس کے بعد جو لوگ ہیں، وہ سب مفکر اصغر ہیں۔
اسلام میں اخلاقی احترام ہے، اسلام میں شخصی عظمت کا تصور نہیں۔ اسلام میں ایک دوسرے کی خیرخواہی کا تصور ہے، لیکن یہ تصور اسلام میں نہیں ہےکہ کسی ایک شخص کو اکبر اور اعظم جیسا ٹائٹل دیا جائے۔ کیوں کہ اس سے شخصیت پرستی کا ذہن پیدا ہوتا ہے۔