حکمت کی تعلیم
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کا رسول انسانوں کو اللہ کی کتاب دیتا ہے، جس میں اللہ کے قوانین درج ہیں، اور اسی کے ساتھ وہ انسان کوحکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ حکمت کی تعلیم سے کیا چیز مراد ہے۔اصل یہ ہے کہ قرآن کی تعلیم پر عمل کرنا،کوئی سادہ بات نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ دنیا ایک میدان ہے، اور اس میں ہر انسان آزاد ہے کہ وہ جو کچھ کرنا چاہے، بلا روک ٹوک اپنی مرضی کے مطابق انجام دے سکے۔ بلکہ صورت حال یہ ہے کہ دنیا میں دوسرے بہت سے انسان آباد ہیں۔ ہر ایک کے اپنے منصوبے ہیں، ہر ایک کا اپنا الگ الگ ایجنڈا ہے۔ ایسی حالت میں یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ دوسروں کی رعایت کرتے ہوئے اپنا منصوبہ بنائے۔ اگر لوگ ایسا نہ کریں تو سارے لوگ آپس میں لڑیں گے، اور کوئی بھی شخص اپنا کام درست طور پر انجام نہ دے سکے گا۔
ایسی حالت میں انسان کو اپنا کام انجام دینے کے لیے دانش مندانہ منصوبہ بنانا پڑتا ہے۔ اس دانش مندانہ منصوبے کو ایک لفظ میں پریکٹکل وزڈم کہا جاسکتا ہے۔ اس اعتبار سے قرآن کی ان آیات میں حکمت سے مراد عملی دانش مندی (practical wisdom) ہے۔ یعنی دوسروں سے ٹکراؤ کیے بغیر اپنے منصوبے کو مکمل کرنا۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ مکہ میں جب آپ نے توحید کا مشن شروع کیا تو وہاں کی اکثر آبادی شرک پر قائم تھی۔ رسول اللہ کو یہ کرنا تھا کہ مشرکین سے ٹکراؤ کیے بغیر اپنا توحید کا منصوبہ پر امن انداز میں عمل میں لائیں۔ توحید کا اصول ایک مطلق اصول ہے۔ اس کے مقابلے میں توحیدکو زیر عمل لانا، دانش مندانہ منصوبے کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹکراؤ کیے بغیر توحید کے منصوبے کو زیر عمل لانے کے لیے اس حکمت کو اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جس کو پریکٹکل وزڈم کہاجاتاہے۔ پیغمبر یہ کرتا ہے کہ وہ ایک طرف توحید کے اصول لوگوں کو بتا تا ہے، اور دوسری طرف وہ پریکٹکل وزڈم یعنی اس کے اختیار کرنے کے عملی پہلوؤں سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے تاکہ وہ کوئی نیا مسئلہ کھڑا کیے بغیر توحید کے عامل بن سکیں۔
غور و تدبر سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں رسول کی نسبت سے جس چیز کو حکمت کہا گیا ہے۔ اس سے مراد یہی پریکٹکل وزڈم ہے۔ پیغمبر نے اپنی پوری زندگی میں اس پریکٹکل وزڈم کو اختیار کیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو رسول اور اصحابِ رسول لڑائی اور ٹکراؤ کی تاریخ بناتے، نہ کہ توحید کی اشاعت کی تاریخ۔
مثال کے طور پر رسول اللہ نے مکہ میں توحید کا پیغام دینا شروع کیا تو آپ نے کعبہ سے اس کا آغاز کیا۔ اس وقت کعبہ میں سینکڑوں کی تعداد میں مشرکین نے اپنے بت رکھ دیے تھے۔ اگر آپ اپنے مشن کا آغاز بتوں کو کعبہ سے نکالنے سے شروع کرتے تو یقینا آپ کا مشرکین کے ساتھ ٹکراؤ شروع ہوجاتا، اور کوئی مثبت کام انجام نہ پاتا۔ اسی طرح ہجرت کے وقت ایسا نہ ہوتا کہ آپ پرامن طور پر مکہ کو چھوڑ کر مدینہ چلے جاتے اورنہ ہی مدینہ میں اپنے مشن کی ری پلاننگ کرتے۔ اسی طرح حدیبیہ کے موقع پر ایسا نہ ہوتا کہ آپ کے اور مشرکین کے درمیان ناجنگ معاہدہ تشکیل پاتا، بلکہ دونوں فریق حدیبیہ کو جنگ کا میدان بنا لیتے، وغیرہ۔
پیغمبر کی نسبت سے حکمت کا لفظ سمجھنے کے لیے ہم کو یہ طریقہ اختیار کرنا پڑے گا کہ پیغمبر نے عملاً اس حکمت کو مکہ اور مدینہ میں کس طرح اختیار کیا۔ اس معاملے میں رسول اللہ کا عملی نمونہ بتائے گا کہ وہ چیز کیا تھی، جس کو قرآن میں آپ کی نسبت سے حکمت کہا گیا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس آیت کی تفسیر یہ بنتی ہے کہ الکتاب، رسول اللہ کی تعلیمات کو جاننے کا نظری ماخذ ہے، اور توحید کے مشن کو عرب میں جاری کرنے کے لیے آپ نے جو طریقہ کار اختیار فرمایا، وہ آپ کا عمل ہے،جس کو قرآن میں حکمت کہا گیا ہے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ الکتاب سے مراد اسلام کی نظری تعلیم ہے، اور حکمت سے مراد اس کا عملی پہلو ہے۔ دوسرے لفظ میں حکمت سے مراد وہی چیز ہے، جس کو پریکٹکل وزڈم (practical wisdom)کہا جاتا ہے۔ یعنی نظری تعلیم کو عمل کی صورت میں ڈھالنا۔