مومن کی فراست
ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:اتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّہُ یَنْظُرُ بِنُورِ اللہِ(سنن الترمذی، حدیث نمبر 3127)۔یعنی مومن کی فراست سے بچو، کیوں کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ اس کا مطلب دوسرے الفاظ میں یہ ہے کہ دانش مند آدمی کے ساتھ چالبازی سے بچو۔
مومن وہ ہے جو اللہ رب العالمین کے نقشۂ تخلیق (creation plan) کو دریافت کرتا ہے۔ وہ فطرت کے اصولوں کی بنیاد پر اپنی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے۔ اس کا ارتقا اس کو اس قابل بنادیتا ہے کہ وہ چیزوں کو خالق کائنات کی روشنی میں دیکھ سکے۔یہ چیزیں مومن کو اعلیٰ معنوں میں دانش مند بنادیتی ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ حکمت (wisdom) کی روشنی میں اپنے معاملات کو حل کرے۔
دانش مندی کیا ہے۔ دراصل فطرت کے قوانین کی پابندی کرنے کا نام ہے۔ جو آدمی اس معنی میں دانش مند ہو،وہ ایک ناقابلِ تسخیر انسان بن جاتا ہے۔ وہ ان کمزوریوں سے پاک ہوتا ہے جو کسی انسان کو کمزور شخصیت (weak personality) بنانے والی ہیں۔ اس کی بناپر کوئی انسان جذباتیت کا شکار نہیں ہوتا۔ وہ اپنے آپ کو اس سے بچالیتا ہے کہ شیطان اس کو اپنی تزئینات کا شکار کرلے، اوراس کو تباہی کے راستے پرچلنے والا بنادے۔
فراستِ مومن سے مراد وہ فراست ہے جو اللہ رب العالمین کی دریافت سے بنے۔ جو اللہ کے قائم کردہ فطری قوانین پر مبنی ہو۔ ایسا انسان غلط منصوبہ بندی سے بچ جاتا ہے۔ اس بنا پر وہ اس قابل ہوجاتا ہےکہ وہ کسی کی سازش کا شکار ہونے سے بچ جائے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ دانش مند آدمی کسی بھی بات کو ایز اٹ از (as it is) نہیں قبول کرتا، بلکہ وہ اس کو دیکھتا ہے، اس میں غور و فکر کرتا ہے، معاملے کی اسکروٹنی (scrutiny)کرتا ہے، پھر وہ اس کو قبول کرتا یا رد کرتا ہے۔ اس بنا پر وہ اپنے آپ کو غیر ضروری مسائل سے بچالیتا ہے۔