ماحول کا اثر
ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہِ، أَوْ یُنَصِّرَانِہِ، أَوْ یُمَجِّسَانِہِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1385)۔ یعنی ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی بنادیتے ہیں، یا نصرانی، یا مجوسی۔
اس حدیثِ رسول میں والدین سے مراد قریبی ماحول ہے۔ ہر آدمی کسی ماحول میں پیدا ہوتا ہے۔ اس وقت وہ صرف ایک بچہ ہوتا ہے، یعنی ناپختہ انسان(immature human being)۔ فطرت کے اعتبار سے ہر آدمی اپنی زندگی کا آغاز ناپختگی سے کرتا ہے۔ اس لیے ہر آدمی ماحول سے اثر قبول کرکے ماحول کی پیداوار (product) بن جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اپنے فطری حالات کی بنا پرہر انسان لازمی طور پر ایک متاثر ذہن کا انسان (man of conditioning) بن جاتا ہے۔
اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ اس کا حل صرف یہ ہے کہ ہر آدمی اپنا بے لاگ محاسبہ (introspection) کرے۔ اس پراسس میں وہ اپنی کنڈیشننگ کو دریافت کرے، اور ایک ایک کرکے اپنی کنڈیشننگ کو توڑے، اور اس طرح اپنے آپ کو کنڈیشننگ سے نکال کر ایک ڈی کنڈیشنڈ انسان بنائے۔ کنڈیشننگ کا یہ واقعہ ہر انسان کی زندگی میں ایک فطری قانون کے تحت پیش آتا ہے۔ لیکن اسی طرح اس معاملے میں اصلاحِ فطرت کا قانون بھی ہے۔ اگر آدمی اس فطری قانون کو استعمال کرے تو خود فطرت اس کی معلم بن جائے گی۔ اس کے ذہن میں اپنے آپ ایک جوابی کنڈیشننگ (counter conditioning) کا عمل شروع ہوجائے گا۔ یہاں تک کہ دھیرے دھیرے وہ مکمل معنوں میں ایک ڈی کنڈیشنڈ انسان بن جائے گا۔