کامیاب زندگی کا طریقہ

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: مَا طَلَعَتْ شَمْسٌ قَطُّ إِلَّا بُعِثَ بِجَنْبَتَیْہَا مَلَکَانِ یُنَادِیَانِ، یُسْمِعَانِ أَہْلَ الْأَرْضِ إِلَّا الثَّقَلَیْنِ:یَا أَیُّہَا النَّاسُ ہَلُمُّوا إِلَى رَبِّکُمْ فَإِنَّ مَا قَلَّ وَکَفَى خَیْرٌ مِمَّا کَثُرَ وَأَلْہَى(مسند احمد، حدیث نمبر 21721)۔ یعنی جب سورج طلوع ہوتا ہے تو دو فرشتے اس کے دونوں کناروں پر بھیجے جاتے ہیں۔ وہ دونوں اعلان کرتے ہیں، جس کو جن و انسان کے علاوہ تمام مخلوقات سنتی ہیں: اے لوگو، اپنے رب کی طرف آئو، جو کم ہو، اور کافی ہو، وہ بہتر ہےاس سے جو زیادہ ہو، اور غفلت میں ڈالدے۔

انسان کو زندگی گزارنے کے لیے کچھ مادی سامانِ حیات درکار ہوتا ہے۔ یہ سامان حیات زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے۔ لیکن سامانِ حیات فراہم کرنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک ہے، بقدرِ ضروت پر اکتفا کرنا، اور دوسرا ہے، ہر خواہش کو پورا کر نے کی کوشش کرنا۔ جو آدمی سامانِ حیات کے معاملے میں بقدرِ ضرورت پر اکتفا کرے، وہ کامیاب انسان ہے، اور جو آدمی ہر خواہش کی تکمیل کو اپنا مقصدِ حیات بنالے، وہ کامیاب زندگی کی تعمیر سے محروم رہے گا۔

جو آدمی سامان حیات کو ضرورت کے درجے میں رکھے، اور اپنی ساری توجہ مقصدِ حیات کو جاننے پر لگائے، اس کی زندگی کامیاب زندگی ہوگی۔ کیوں کہ ضرورت پر اکتفا کرنے پر اس کو کافی موقع ملےگا کہ وہ زندگی کے اصل مقصد کے حصول کے لیے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ فارغ کرسکے۔

مثلاً ایسے آدمی کے پاس کافی وقت ہوگا۔ وہ کتابوں کا مطالعہ کرکے زندگی کے مقصد کے بارے میں اپنے علم کو بڑھائے۔ اس کے برعکس، جو آدمی سامانِ حیات کو بذاتِ خود اہم سمجھ لے، وہ سامانِ حیات کی زیادہ سے زیادہ فراہمی میں اتنا وقت لگادے گا کہ اس کے پاس اصل مقصد کے لیے کچھ کرنے کا وقت ہی باقی نہیں رہے گا۔ اس کے پاس سامان حیات کی افراط ہوگی، لیکن انٹلکچول ڈیولپمنٹ کے معاملے میں وہ ذہنی بوناپن کا شکار ہوجائے گا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom