اتباع کا مطلب

اکثر سلفی حضرات یہ اصول بیان کرتے ہیں کہ کُلُّ خَیْرٍ فِی اتِّبَاعِ مَنْ سَلَف، وَکُلُّ شَرٍ فی ابْتـدَاعِ مِـنْ خَلَـفْ(تمام خیر سلف کی اتباع میں ہے، اور تمام برائی بعد میں آنے والوں کی ایجاد کردہ باتوں میں ہے)۔ اس کی حقیقت کیا ہے۔ وضاحت فرمائیں۔ (حافظ سید اقبال احمدعمری، چنئی، تامل ناڈو)۔

اس کے جواب میں یہاں ایک حدیث رسول، اور خود ائمہ سلف میں سے ایک امام کا قول نقل کیا جاتا ہے۔حدیث رسول یہ ہے:تَرَکْتُ فِیکُمْ أَمْرَیْنِ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِہِمَا:کِتَابَ اللَّہِ وَسُنَّةَ نَبِیِّہِ(موطا امام مالک، حدیث نمبر 2618)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں، تم ہرگز گمراہ نہیں ہوگے جب تک تم اس کو پکڑے رہو، وہ ہے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔

اسی کے مثل امام احمد بن حنبل (وفات241:ھ)نے مسئلۂ خلقِ قرآن کے تعلق سے خلیفہ معتصم باللہ (وفات227:ھ) سےکہا تھا:یا أمیر المؤمنین، أعطُونی شیئًا من کتاب اللہ أو سنّة رسول اللہ حتّى أقول بہ (تاریخ الاسلام للذہبی، بیروت، 1993، 18/103)۔یعنی اے امیر المومنین، آپ مجھے کوئی ایسی چیز لاکر دیجیے جو کتاب اللہ یا سنت رسول میں ہو، تاکہ میں اس کو مان لوں۔

حدیثِ رسول اور امام احمد کے بیان کردہ اصول کی روشنی میں سلفی حضرات کے مذکورہ قول کودیکھنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قول کو اگر معتدل معنی میں لیا جائے تو وہ صرف یہ ہے کہ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے عمل یا نظریہ کا انتخاب کرتے ہوئے، دوسرے علما سے استفادہ کرے۔ اس قول کو اس معنی میں لیا جائے تو اس میں کوئی قباحت پیدا نہیں ہوگی، لیکن اگر اس کو غلو تک پہنچا دیا جائے، تو پھر اس میں قباحت کا آغاز ہوجاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہر قول میں ایک سچائی کا عنصر ہوتا ہے۔ اس عنصر کو ملحوظ رکھتے ہوئے، جب اس پر عمل کیا جائے، تو وہ اعتدال کا معاملہ رہتا ہے، لیکن جب اس کو منطقی حد (logical end) تک پہنچا دیا جائے، تو اس میں مشکلات کا آغاز ہوجائے گا۔

مثلاً اگر ایک عالم کہتا ہے کہ وضو کے وقت تمام اعضا کو ٹھیک سے دھونا چاہیے۔ سادہ مفہوم کے لحاظ سے یہ قول بالکل درست قول ہے۔ لیکن اگر اس کو منطقی حد تک پہنچایا جائے، اور یہ کہا جائے کہ ہر بال کی جڑ تک پانی کو پہنچانا ضروری ہے، یا آنکھ کے اندر ونی حصے کو دھونا ضروری ہے، تو یہ غلو کا معاملہ ہوگا، اور دین کے نام پر شدت تک پہنچ جائے گا، جو دین میں مطلوب نہیں — دین میں اعتدال مطلوب ہے، اور غلو غیر مطلوب۔

 

قرآن کے مطابق، ہمارا دشمن صرف شیطان ہے جس کو قرآن میں طاغوت کہا گیا ہے۔ ہماری لڑائی صرف شیطان سے ہے، کسی اور سے نہیں۔انسان کے اندر امتحان کے مقصد سے مختلف قسم کے جذبات رکھے گئے ہیں۔ مثلاً غصہ اور انتقام، وغیرہ۔ اِن جذبات کو غلط رُخ دے کر شیطان ہم کو صحیح راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وہ مواقع ہیں جب کہ ہمیں شیطان سے لڑنا ہے۔ شیطان کی تزئین (الحجر، 15:39) سے بچنے ہی کا نام تزکیہ ہے اور جو لوگ اِس اعتبار سے اپنا تزکیہ کریں، وہی وہ لوگ ہیں جن کو جنت میں داخلہ ملے گا (طٰہٰ، 20:76) شیطان کے خلاف انسان کی لڑائی صرف نفسیات کی سطح پر ہوتی ہے، تشدّد اور ہتھیار کی سطح پر نہیں۔جہاں تک انسان کا معاملہ ہے، قرآن کے مطابق، انسان ہمارا مدعو ہے۔ وہ ہمارا حریف یا دشمن نہیں۔ انسان کے ساتھ ہمارا تعلق داعی اور مدعو کا ہے، دشمن یا مدّ ِمقابل کا نہیں۔ انسان کے مقابلے میں ہماری ذمے داری یہ ہے کہ ہم اُس کو پر امن طور پر خدا کا پیغام پہنچائیں۔ پیغام رسانی کا یہ کام صرف وہ لوگ کرسکتے ہیں جو نفرت اور عداوت کے جذبات سے مکمل طورپر خالی ہوں۔ نفر ت اور دعوت دونوں ایک سینے کے اندر جمع نہیں ہوسکتے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom