داخلی اصلاح کا نظام
فطرت (nature) خالق کی ایک تخلیق ہے۔اس موضوع پر قرآن کی مختلف آیتوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کا جو مطلب سمجھ میں آتا ہے، وہ یہ ہے کہ فطرت کوئی پر اسرار چیز نہیں، وہ انسان کے لیے ایک معلوم حقیقت ہے۔ فطرت ہر موقعے پر انسان کو الارم دیتی ہے کہ وہ کیا کرے، اور کیا نہ کرے۔ فطرت کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں:فِطْرَتَ اللَّہِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا(30:30)۔ یعنی اللہ کی فطرت جس پر اس نے لوگوں کو بنایا ہے۔ اسی طرح قرآن میں آیا ہے: فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا (91:8)۔یعنی پھر اس کو سمجھ دی، اس کی بدی کی اور اس کی نیکی کی۔
فطرت ہر موقعے پر انسان کی رہنمائی کرتی ہے۔ لیکن یہ رہنمائی خاموش زبان (unspoken language)میں ہوتی ہے۔ فطرت انسان کی صحیح گائڈ ہے۔ وہ ہر موقعے پر انسان کو آواز دیتی ہے۔ کیوں کہ انسان کے اندر بیک وقت دو فیکلٹی موجود ہیں، ایک اکاؤنٹیبل پرسنالٹی، اور دوسرا الارمنگ کانشنس(conscience)۔
اگر آدمی بر وقت اس آواز کو سن لے، تو وہ فوراً انسان کی رہنمائی کے لیے متحرک ہوجاتی ہے، اور اگر انسان فوراً متحرک نہ ہو، تو وہ انسان کو اس کے حال پر چھوڑ دیتی ہے۔فطرت کی یہ خاموش زبان اگرچہ انسان نہیں سنتا، لیکن ہر آدمی اس کو غیر واضح انداز میں فوراً محسوس کرلیتا ہے۔یہ واقعہ جو انسان کے اندر پیش آتا ہے، وہ دوسرے الفاظ میں وہی ہے جس کو ضمیر (conscience) کہا جاتا ہے۔
انسان کی شخصیت ایک آزاد شخصیت ہے۔ وہ ردو قبول کا آزادانہ فیصلہ کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ فطرت یا ضمیرکا کام انسان کو صرف الارم دینا ہے۔ یہ فطری الارم اپنے صحیح وقت پر بجتا ہے، اور انسان یقینی طور پر اس کو سنتا ہے۔ اب یہ انسان کا اپنا چوائس (choice) ہے کہ وہ فطرت کی آواز کو سنے یا اس کا انکار کردے۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:فَمَنْ شَاءَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ ( 18:29)۔ یعنی اور کہو کہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے، پس جو شخص چاہے اسے مانے اور جو شخص چاہے نہ مانے۔
جنت اور جہنم کا معاملہ بھی انھیں دونوں سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ فطرت کا نظام ہے جو ہر انسان کے اندر پیدائشی طور پر موجود رہتا ہے۔ انسان اگر اس نظام کی پیروی کرے تو وہ ہمیشہ درست راستے پر چلے گا۔ وہ کبھی ڈی ریل (derail)ہوکر غلط راستہ اختیار نہیں کرے گا۔اس نظام کو ایک اعتبار سے داخلی اصلاح کا نظام (system of internal correction) کہا جاسکتا ہے۔
اس دنیا میں آدمی جب کوئی کام کرتا ہے تو اگر چہ اس کو شروع کرنے والا وہ خود ہوتا ہے۔ مگر اس کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب کہ فطرت کا نظام بھی اس کے ساتھ موافقت کرے۔ فطرت کے نظام کی موافقت حاصل کیے بغیر، یہاں کوئی کام کبھی تکمیل کو پہنچنے والا نہیں۔
فطرت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ تدریج کے اصول پر عمل کرتی ہے۔ وہ واقعات کو اچانک ظہور میں نہیں لاتی۔ اب انسان اگر فوراً اور جلد نتیجہ نکالنا چاہے تو وہ عملاً ممکن نہ ہوگا۔ کیوں کہ انسان کی رفتار تیز ہوگی اور فطرت کی رفتار تدریجی قاعدے کی بنا پر سُست۔ ایسی حالت میں آدمی کو اپنے کام میں فطرت کی موافقت حاصل نہ ہوگی۔ اس کا کام بننے کے بجائے صرف بگڑ کر رہ جائے گا۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ جو کام بھی کرنا چاہے، سب سے پہلے وہ فطرت کے نظام کا مطالعہ کرے۔ اس کے بارے میں وہ فطرت کے اصول کو معلوم کرے۔ اور پھر اس مطالعہ کی روشنی میں اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔ یہی واحد طریقہ ہے جس کو اختیار کرکے کوئی شخص کامیابی کے ساتھ اپنے مقصد تک پہنچ سکتا ہے۔
کامیابی اورناکامی دونوں کا معاملہ فطرت کے نظام سے جُڑا ہوا ہے۔ اِس دنیا میں فطرت سے مطابقت کرنے کا نام کامیابی ہے، اور فطرت کے خلاف چلنے کا نام ناکامی۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ پہلے فطرت کے نظام کو سمجھے اور اُس کے بعد اُس کے مطابق، وہ اپنے کام کی منصوبہ بندی کرے۔