شخصیت کی تبدیلی

رسول اللہ کے بہت سے اصحاب کے بارے میں کتابوں میں آتا ہے کہ اسلام سے پہلے وہ ایک مختلف انسان تھے، اسلام قبول کرنے کے بعد وہ بالکل دوسرےانسان بن گئے۔ مثلاً پہلے سخت تھے، تو اب نرم ہوگئے۔ پہلے ان کے اندر نفرت کا جذبہ تھا، تو اب وہ انسان سے محبت کرنے والے بن گئے، وغیرہ۔

صحابہ کے اندر یہ تبدیلی کسی کرامت کی بنا پر نہیں ہوئی، بلکہ معلوم سبب سے ہوئی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد ان کے دلوں میں اللہ کا ڈر پیدا ہوگیا۔ پہلے وہ بے فکری کی زندگی گزارتے تھے، اب وہ آخرت کو سوچ کر فکر مند زندگی گزارنے لگے، وغیرہ۔ ان چیزوں کے نتیجے میں ان کے اندر نئی سوچ جاگی۔ وہ آخرت کی جواب دہی کے بارے میں سوچنے لگے۔ ان کے اندر جنت کا شوق پیدا ہوگیا۔ اس طرح ان کے اندر ایک نیا فکری عمل (thinking process) جاری ہوگیا۔ اس فکری عمل کے نتیجے میں دھیرے دھیرے ان کی سوچ بدلی۔ سوچ کی اس تبدیلی کے نتیجے میں وہ تبدیلی آئی، جس کو اب ہم سیرت کی کتابوں میں پڑھتے ہیں۔

اس طرح کی تبدیلی کسی کرامت کے نتیجے میں نہیں پیدا ہوتی۔ بلکہ وہ فکری انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ انسان پہلے ذہن کی سطح پر بدلتا ہے۔ اس کے بعد اس کے اخلاق اور کردار میں تبدیلی آتی ہے۔ آدمی کی فکر میں اگر تبدیلی نہ آئے، تو اس کے اندر عمل کے اعتبار سے تبدیلی بھی نہیں آئے گی۔ آدمی پہلے شعور کی سطح پر بدلتا ہے، اس کے بعد وہ عمل کی سطح پرایک نیا انسان بن جاتا ہے۔ یہ ایک خاموش پراسس (silent process) ہے، جو ہر اس انسان کی زندگی میں پیدا ہوتا ہے، جو سوچ سمجھ کر اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کرے۔

ایسے لوگوں کا کیس یہ تھا کہ پہلے وہ بے خبری کی زندگی گزار رہے تھے۔ بعد کو جب انھیں حقیقت کی دریافت ہوئی، تو ان کا ذہن جاگ اٹھا۔ وہ اپنے ماضی اور مستقبل کے بارے میں سوچنے لگے۔ وہ اپنے بارے میں یہ سوچنے لگے کہ انھوں نے زندگی میں کیا کھویا، اور کیا پایا۔ انھوں نے اپنا محاسبہ شروع کردیا۔وہ زیادہ گہرائی کے ساتھ اپنے حال اور اپنے مستقبل پر غور کرنے لگے۔ وہ زیادہ بے لاگ انداز میں اپنا جائزہ لینے لگے۔ اس سوچ نے ان کے اندر ایک فکری انقلاب پیدا کردیا۔ ان کے اندر یہ سوچ پیدا ہوئی کہ اگرچہ انھوں نے اپنے ماضی کو کھویا ہے، لیکن مستقبل اب بھی ان کے پاس ہے۔ ان کو یہ کرنا چاہیے کہ درست پلاننگ کے ذریعے اپنے مستقبل کو بچائیں۔ پیچھے کی بربادی کی تلافی آگے کی نتیجہ خیز پلاننگ کے ذریعے کریں۔ یہی فکر تھی، جس نے ان کو ایک نیا انسان بنا دیا۔

صحابہ تمام مسلمانوں کے لیے نمونہ ہیں۔ یہ نمونہ وہ اس لیے نہیں ہیں کہ وہ مقدس تھے۔ بلکہ وہ اس لیے نمونہ ہیں کہ انھوں نے اپنے زندگی کی نئی منصوبہ بندی کی۔ انھوں نے اپنی کمی کو دریافت کیا، انھوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا، اور درست منصوبہ بندی کے ذریعے اپنی زندگی کی نئی تعمیر کی۔

خلافت یانظام صالح کوئی ایسی چیز نہیں جو کاغذ سے نکل کر زمین پر قائم ہوجائے۔ اس دنیا میں صالح نظام کو قائم کرنے کے لیے ہمیشہ صالح افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر صالح افراد موجود نہ ہوں تو خلافت یا نظام صالح کا نام لینے سے کوئی صالح نظام قائم نہیں ہوسکتا۔ یہ عمل اور نتیجے کے درمیان فرق کا معاملہ ہے۔ اگر آپ پھل چاہتے ہوں تو پہلے آپ کو شجر کاری پر عمل کرنا ہوگا۔ شجر کاری کے میدان میں ضروری عمل کیے بغیر کبھی کوئی شخص پھل کا مالک نہیں بن سکتا۔یہی معاملہ خلافت یا نظام صالح کے قیام کا بھی ہے۔ کرنے والوں کو سب سے پہلے یہ کرنا ہے کہ وہ افراد کے اندر اعلیٰ ایمانی شعور جگائیں۔ وہ لوگوں کے اندر بلند کرداری پیدا کریں۔ وہ ایسے افراد تیار کریں جو ہر قسم کے نفسانی محرکات سے اوپر اٹھ کر لوگوں سے معاملہ کرنے والے ہوں۔ جن کے اندر یہ استعدادپیدا ہو چکی ہو کہ وہ اقتدار پاکر بھی متواضع بنے رہیں۔ زمین کے خزانے ان کے ہاتھوں میں آئیں مگر وہ مال کی محبت میں مبتلا نہ ہوں۔ لوگوں کی طرف سے ان کی اناکو چوٹ لگے، اس کے باوجود وہ انصاف کے اصول پر قائم رہیں۔ ایسے افراد ہی کوئی صالح نظام قائم کرتے ہیں۔ ایسے افراد کے بغیر خلافت یا صالح نظام کا نعرہ لگانا صرف فساد فی الارض ہے، نہ کہ حقیقی معنی میں کوئی نتیجہ خیز عمل۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom