بیدار ذہنی
قرآن میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے: إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا کَأَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَرْصُوصٌ (61:4)۔ یعنی اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے راستے میں اس طرح مل کر لڑتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
اس آیت میں بظاہر قتال کا ذکر ہے۔ لیکن وسیع تر معنی میں اس سے مراد ہر قسم کی دینی جدوجہد ہے۔ وسیع تر معنی میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دینی مشن کے لیے اس طرح متحد ہوکر کوشش کرنا کہ آپ کا اختلاف ہرگز اس متحدہ جدو جہد کے لیے رکاوٹ نہ بنے۔
اجتماعی زندگی میں اختلاف کا پیش آنا، ایک فطری امر ہے۔ کوئی بھی اجتماعی معاملہ ہو، اس میں افراد کے درمیان اختلاف کی صورتیں ضرور پیش آتی ہیں۔ لیکن اہلِ ایمان ذہنی ارتقا کے اس درجے پر ہوتے ہیں کہ وہ ہر اختلاف کو مینج کرلیتے ہیں۔ وہ اختلاف کو کسی بھی حال میں دین کی اجتماعی جدو جہد کے لیے رکاوٹ بننے نہیں دیتے۔ اس کی ایک مثال دو صحابی کا یہ واقعہ ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ، قَالَ:کَانَ بَیْنَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ، وَبَیْنَ سَعْدٍ کَلَامٌ، قَالَ:فَتَنَاوَلَ رَجُلٌ خَالِدًا عِنْدَ سَعْدٍ، قَالَ:فَقَالَ سَعْدٌ:مَہْ، فَإِنَّ مَا بَیْنَنَا لَمْ یَبْلُغْ دِینَنَا(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 3810)۔ یعنی طارق بن شہاب روایت کرتے ہیں کہ خالد بن الولید اور سعد بن ابی وقاص کے درمیان کچھ تکرار ہوگئی۔ اس کے بعد ایک آدمی نے سعد کے پاس خالد کا بُرا ذکر کیا، تو سعد نے کہا: دور ہوجاؤ، ہمارے درمیان جو کچھ ہے، وہ ہمارے دین تک نہیں پہنچے گا۔
اسی اجتماعی اسپرٹ کا نام اختلاف کے باوجود متحد ہونا ہے۔ اس طرح کا کردار مینج کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی دو واقعے کو ایک دوسرے سے الگ رکھے، ذاتی اختلاف کا معاملہ الگ، اور مشن کے لیے اتحاد کا معاملہ الگ۔ جو لوگ اس اسپرٹ کے حامل ہوں، ان کا اتحاد کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔