تسفیہ یا تنقید
ایک مضمون نگار نے ہندستانی مسلمانوں پر ایک مقالہ شائع کیا ہے۔ اس کا ایک حصہ یہ ہے:اس سے زیادہ بے عقلی کی کوئی بات نہیں ہے کہ یہ کہا جائے کہ(انڈیا میں ) ’’مسلمان ترقی کررہے ہیں ‘‘۔ ایسی بات اسی شخص کی زبان سے نکل سکتی ہے جو ذہنی اور فکری طور پر مفلس ہوگیاہو یا غباوت کی بلند ترین چوٹی پر ہو (جولائی- اگست 2016)۔اس پیراگراف میں جو جملے ہیں، وہ باعتبار گرامر درست ہیں۔ لیکن اپنے معنی کے اعتبار سے وہ درست نہیں کہے جاسکتے۔
حقیقت کے اعتبار سے دیکھیے تو ترقی عطیے کی چیز نہیں۔ وہ ایک خود حاصل کردہ چیز کا نام ہے۔ اس دنیا میں ہر قسم کے مواقع پھیلے ہوئے ہیں۔ جو فرد یا گروہ ان مواقع کو پہچانے، اور ان کو درست طور پر استعمال کرے، وہ ترقی کرے گا، اور جو فرد یا گروہ ان مواقع کو نہ پہچانے، اور درست منصوبہ کے ذریعہ ان کو حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے، وہ ترقی سے محروم رہے گا۔
فطرت کے قانون کےمطابق، اس دنیا کا اصول یہ ہے کہ جیسا بونا ویسا کاٹنا۔ اصل یہ ہے کہ ترقی کرنا، انسان کا اپنا کام ہے۔دوسراانسان اس کو نہ تو ترقی دے سکتا، اور نہ ترقی سے محروم کرسکتا۔موجودہ زمانے میں ایک نیا دور آیا ہے، اس کو ترقی کا انفجار کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں ترقی کے مواقع اتنے زیادہ کھل چکے ہیں کہ کوئی شخص ترقی سے محروم نہیں رہ سکتا، الا یہ کہ وہ ترقی کرنا نہ چاہتا ہو۔ موجودہ زمانہ ایک مختلف زمانہ ہے۔ اس زمانے میں اجارہ داری (monopoly) کا تصور ختم ہوچکا ہے۔ اب آزادی کا دور ہے، نہ کہ اجارہ داری کا دور۔
ایک دن ایک صاحب مجھ سےملنے کے لیے آئے، وہ میرے گاؤں کے رہنے والے تھے۔ میں ان سے پوچھا کہ دہلی میں کیسے آنا ہوا۔ انھوں نے کہا کہ میرا پوتا انگلینڈ جارہا ہے، اس کو پہنچانے کے لیے آیا ہوں۔ اس طرح کے تجربے مجھے بار بار ہوتے رہتے ہیں۔ ایک آدمی جس کے پاس پہلے کوئی روزگار نہیں تھا۔ اب وہ روزگار کے نئے طریقوں کو حاصل کرکے ترقی کر رہا ہے، وغیرہ۔