مطالعے کی افادیت
کتابوں کا مطالعہ بہت مفید ہے۔ لیکن صرف کتابی مطالعہ کافی نہیں۔ ضروری ہے کہ قاری کی حیثیت ایک تیار ذہن (prepared mind) کی ہو۔ ایسا ہی قاری کتابوں کے مطالعے سے پورا فائدہ حاصل کرسکتاہے۔
مثلاً ابو بکر احمد بن مروان الدینوری المالکی (المتوفى 333ھ) نے اپنی کتاب میں اصحاب رسول کے تعلق سے لکھا ہے: وَکَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَّجِرُونَ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (المجالسہ و جواہر العلم، جزء 7، اثر نمبر754)۔ یعنی اصحابِ رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم خشکی اور تری میں تجارت کیا کرتے تھے۔ اسی بات کو امام الغزالی (450-505ھ)نے اپنی معروف کتاب احیاء علوم الدین میں اس باب کے تحت نقل کیا ہے: فَضْلُ الْکَسْبِ وَالْحَثِّ عَلَیْہِ(کمائی کی فضیلت اور اس پر ابھارنا)۔
صحابہ کرام کی یہ صفت بلاشبہ بہت اہم ہے۔ لیکن اگر آپ ایسا کریں کہ اس بات کو کتاب میں پڑھیں، اور اس کو ایسا ہی لے لیں، جیسا کہ وہ نقل ہوئی ہے، تو آپ اس سے صرف یہ نتیجہ نکالیں گے کہ رزق کے حصول کا افضل طریقہ یہ ہے کہ آدمی تجارت کے ذریعے کمائی کرے۔ مگر یہ مطالعے کا کمتر طریقہ ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ کا مطالعہ اتنا وسیع ہو کہ آپ صحابہ کے بارے میں یہ جانتے ہوں کہ صحابہ آج کل کی اصطلاح میں مین آف مشن (man of mission) تھے۔ پیغمبر ِ اسلام پورے معنوں میں مین آف مشن تھے، اور پیغمبر اسلام کی تعلیم کی بنا پر ہر صحابی عملاً مین آف مشن بنا ہوا تھا۔
اگر آپ اس حقیقت کو جانتے ہوں، تو آپ اقتباس کو پڑھ کر یہ نتیجہ نکالیں گے کہ رسول اللہ کی دعوت کا طریقہ یہ تھا کہ ہر مومن کو تعلیم و تربیت کے ذریعے پورے معنی میں مین آف مشن بنا دیا جائے، تاکہ آدمی جس فیلڈ میں بھی ہو، وہ مین آف مشن کی طرح زندگی گزارے۔ وہ ہر حال میں بامقصد انسا ن کی حیثیت سے اپنے وجود کو برقرار رکھے۔