رسوخ فی العلم
قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: وہی ہے جس نے تمہارے اوپر کتاب اتاری۔ اس میں بعض آیتیں محکم ہیں، وہ کتاب کی اصل ہیں۔ اور دوسری آیتیں متشابہ ہیں۔ پس جن کے دلوں میں ٹیڑھ ہے، وہ متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑجاتے ہیں فتنہ کی تلاش میں اور اس کے مطلب کی تلاش میں۔ حالاں کہ ان کا مطلب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور جو لوگ راسخ علم والے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے۔ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے۔ اور نصیحت وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقل والے ہیں (آل عمران، 2:7)۔
اس آیت میں متشابہ کا مطلب مشتبہ نہیں ہے۔ بلکہ متشابہات کا مطلب متماثلات ہے۔ یعنی کچھ آیتیں جو امور ِغیب سے تعلق رکھتی ہیں، وہ فطری طور پر تمثیل کی زبان میں ہیں۔ جو لوگ زیادہ گہرائی کے ساتھ مطالعہ کریں، وہ اس حقیقت کو جان لیتے ہیں کہ اس قسم کی آیتیں تمثیل (symbolism) کی زبان میں ہیں۔ انھیں ان آیتوں کے بارے میں شبہ واقع نہیں ہوتا۔ وہ جس طرح محکم آٰیتوں کا مفہوم غیر مشتبہ طور پر سمجھ لیتے ہیں، اسی طرح ان آیتو ں کا مفہوم بھی سمجھ لیتے ہیں، جو تمثیل کی زبان میں آئی ہیں۔
رسوخ کا لفظ یہاں نتیجہ کے اعتبار سے ہے،نہ کہ طریقہ کے اعتبار سے۔ یعنی یہ کہ زیادہ مطالعہ اور گہرے غور وفکر کی بنا پر ایک شخص شبہات سے بلند ہوجائے۔ وہ کنفیوزن (confusion)میں نہ رہے، بلکہ فکری وضوح (intellectual clarity) کا درجہ پالے— اسی کا نام رسوخ فی العلم ہے۔ رسوخ فی العلم کوئی پیدائشی صفت نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص جس کو اپنے حالات کے اعتبار سےیہ موقع ملے کہ وہ موضوع کا گہرا مطالعہ کرے، وہ زیادہ غور و فکر کےساتھ بات کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ ایسا آدمی کنفیوزن سے اوپر اٹھ جاتا ہے۔ وہ یقین کے درجے میں وضوح (clarity) کے ساتھ مذکورہ بات کو سمجھنے کے قابل ہوجاتا ہے۔