اختلاف ایک مثبت ظاہرہ
ایک قول بطور حدیثِ رسول مختلف کتابوں میں نقل کیا گیا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: اخْتِلَافُ أمتِی رَحْمَة (کنز العمال، حدیث نمبر 28686)۔ یعنی میری امت کا اختلاف ایک رحمت ہے۔ محدثین عام طور پر اس قول کوبے اصل ( لَا أصل لَہُ)مانتے ہیں (المقاصد الحسنۃ، حدیث نمبر 39)۔ محدثانہ اصول کے مطابق یہ قول ایک بے اصل قول ہوسکتا ہے۔ لیکن قانونِ فطرت کے اعتبار سے بلاشبہ وہ ایک درست قول ہے۔
اختلاف (difference) فطرت کے قانون کے مطابق ایک مثبت ظاہرہ ہے۔ وہ کوئی غیر مطلوب ظاہرہ نہیں۔ اختلاف اگر سنجیدہ اختلاف ہو تو وہ ڈسکشن کا دروازہ کھولتا ہے۔ لوگ اس پر سنجیدہ اظہارِ رائے کرتے ہیں، جس سے زیر بحث مسئلے کے نئے نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔ بیسویں صدی کے مشہور امریکی رائٹر اور صحافی والٹر لپ مین (Walter Lippmann) نے نہایت درست طور پر کہا ہے کہ جہاں تمام لوگ یکساں طور پر سوچیں تو وہاں کوئی بھی زیادہ نہیں سوچتا:
Where all think alike, no one thinks very much
جب دو پتھر آپس میں ٹکرائیں تو اس سے ایک تیسری چیز ایمرج کرتی ہے، اور وہ چنگاری ہے۔ یہی حال انسان کا ہے۔ جب دو دماغ کسی اختلافی موضوع پر آپس میں گفتگو کریں تو اس سے ایک تیسرا خیال وجود میں آتا ہے، جو کہ دونوں کے ذہنی ارتقا (intellectual development)کا ذریعہ بنتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اختلاف ایک رحمت ہے۔ اختلاف کو اگر سنجیدگی کے ساتھ لیا جائےتو اس سے غور و فکر کا نیا دروازہ کھلتا ہے، معاملے کےنئے پہلو سامنے آتے ہیں۔ البتہ اس کی یہ شرط ہے کہ گفتگو کو ہار جیت کے معنی میں نہ لیا جائے، بلکہ موضوع کی تحقیق کےمعنی میں لیا جائے۔بحث کے دونوں فریق اپنی ذات کو الگ کرکے زیرِ بحث مسئلے پر تبادلۂ خیال کریں۔