آخرت کا معاملہ

ایک لمبی روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس کا ایک جزء یہ ہے۔ پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: أَمَّا ہُوَ فَقَدْ جَاءَہُ الیَقِینُ، إِنِّی لَأَرْجُو لَہُ الخَیْرَ مِنَ اللَّہِ،و َاللَّہِ مَا أَدْرِی - وَأَنَا رَسُولُ اللَّہِ - مَا یُفْعَلُ بِی وَلاَ بِکُمْ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7018)۔یعنی اس کو موت آگئی، اور میں اس کے بارے میں اللہ سے خیر کی امید رکھتا ہوں، خدا کی قسم، میں نہیں جانتا، حالاں کہ میں اللہ کا رسول ہوں، کیا کیا جائے گامیرے ساتھ، اور کیا کیا جائے گا تمھارے ساتھ۔اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، وہ بظاہر اس آیت کے خلاف ہے: لِیَغْفِرَ لَکَ اللَّہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ (48:2)۔ لیکن یہ کوئی تعارض کی بات نہیں۔اس آیت میں جو بات بتائی گئی ہے، وہ خدا کی جانب سےہے۔ اس کے برعکس، ایک انسان کا خدا کی نسبت سے کیا رسپانس ہونا چاہیے، وہ رسول اللہ نے کہا ہے۔ایک سچا انسان جب خدا کے عطیے کو پائے،اس کے تواضع میں بہت زیادہ اضافہ ہوجائے گا، وہ سجدے میں گرجائے گا، وہ یہ کہے گا کہ خدایا، میں تو اس قابل نہیں تھا، یہ محض تیرا فضل ہے، تیرے ہاتھ میں سب کچھ ہے، اور میں کچھ بھی نہیں۔

مذکورہ روایت میں رسول اللہ نے جو بات کہی، وہ عظمتِ خداوندی کے پہلو سے ہے، جس کو قرآن میں ایک مقام پر ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَالْأَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِلَّہِ (82:19)۔جس انسان کو رب العالمین کی عظمتوں کی دریافت ہوجائے، وہ ہر کام کو صرف اللہ رب العالمین کی نسبت سے سوچنے والا بن جاتاہے۔ ہیبتِ خداوندی کی بنا پر اس کا حال یہ ہوجاتاہے کہ وہ اپنے آپ کو لے کر نہیں سوچتا، بلکہ اللہ رب العالمین کو لے کر سوچنے لگتا ہے۔ سچے انسان کو جب اللہ کی دریافت ہوجائے،تو اس کے اندر کامل معنوں میں خدا رخی (God oriented) سوچ بن جاتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو’’ بے کچھ‘‘ او ر اللہ رب العالمین کو’’سب کچھ‘‘ سمجھنے لگتاہے۔ اس کی یہ سوچ اس کے تمام اقوال و افعال میں حاوی ہوجاتی ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom