دعوت میں رُجز

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایک مین آف مشن تھے۔ آپ کی پوری زندگی مشن کی زندگی تھی۔ قرآن میں پیغمبر اسلام کو دعوت کا حکم دیتے ہوئے ایک بنیادی اصول یہ بتایا گیا: وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ (74:5)۔ یعنی رجز کو چھوڑ دو۔ رجز کا لفظی مطلب گندگی (dirty practice)ہے۔ پیغمبر اسلام نے نبوت سے پہلے مکہ میں چالیس سال گزارے تھے۔ پیغمبر اسلام حنفاء میں سے تھے، انھوں نے اس پوری مدت میں کوئی غیر اخلاقی کام نہیں کیا،کبھی کسی قسم کی گندگی کے فعل یا بُری عادت میں مبتلا نہیں ہوئے۔ پھر گندگی چھوڑنے کا مطلب کیا ہے۔

اس آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ گندگی کو چھوڑ دو۔ یہاں رجز (گندگی ) سے وہی چیز مراد لی جائے جو آپ نے عملاً اختیار فرمائی۔ وہ یہ کہ رد عمل (reaction) کا طریقہ اختیار نہ کرو۔ جب آپ نے مکہ میں اپنا مشن شروع کیا تو وہاں کے لوگوں میں شرک کی برائی عام تھی۔ ایسی حالت میں ایک عام انسان یہ کرے گا کہ وہ سماجی طور پر پھیلی برائی کے خلاف ردعمل کا طریقہ اختیار کرے گا۔ مگر آپ کو یہ حکم دیا گیا کہ تم صرف مثبت طریقے پر قائم رہو، اور ردعمل کا طریقہ اختیار نہ کرو۔

پیغمبر اسلام نے مکہ میں جو روش اختیار کی، وہ عمل یہی تھا۔ یعنی موجود برائی کے خلاف ردعمل کا طریقہ اختیار نہ کرنا، اور امن پر قائم رہتے ہوئے مثبت انداز میں توحید کی طرف لوگوں کو بلانا۔ قرآن کی یہ آیت (وَالرُّجْزَ فَاہْجُر) اسلامی مشن کا بنیادی اصول بتاتی ہے۔ وہ یہ کہ ردعمل کی روش سے کامل طور پر دور رہنا، اور کامل طور پر امن اور خیر خواہی کی روش پر قائم رہتے ہوئے لوگوں کو حق کی طرف بلانا۔

بعض مفسرین نے وَالرُّجْزَ فَاہْجُر کی شرح یہ کی ہے کہ بتوں کی گندگی سے دور رہیے، جیسے اب تک دور ہیں۔ مگر یہ ایک غیر ضروری تکلف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ رسول اللہ کے عمل کی بنیاد پر اس کی تفسیر کی جائے، اور وہ یہی ہے کہ بتوں کے معاملے میں رد عمل کا طریقہ اختیار نہ کرو، بلکہ ان سے اعراض کرتے ہوئے مثبت انداز میں دعوت کا کام جاری رکھو۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom