امت کی بیداری
امت کی بیداری ایک عام موضوع ہے، جس پر تمام لوگ کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں۔ اگر ان تحریروں اور تقریروں کو یکجا کیا جائے تو غالباً سب کا خلاصہ ایک ہوگا، اور وہ ہے امت کو جوش دلا کر عمل پر ابھارنا۔ مثلاً امیر شکیب ارسلان کی کتاب لماذا تأخر المسلمون ولماذا تقدم غیرہم (1939ء)، کا موضوع مسلمانوں میں بیداری لانا ہے۔ مگر پوری کتاب جوش دلانے کے انداز میں لکھی گئی ہے، اس میں کوئی ریشنل پوائنٹ نہیں ہے۔ صرف جوش دلا کر ابھارنے کا انداز ہے۔ اسی طرح اقبال کا کلام مسلمانوں کو جوش دلانے کے انداز میں ہے۔ مثلاً ان کا نمائندہ ایک شعر یہ ہے:
نوارا تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی
یعنی اگر ذوق نغمہ کم ہوگیا ہے تو اپنے گیت کوتیز کردے۔ اگر اونٹ پر بوجھ زیادہ ہو تو حْدی خواں اپنی لَے اور تیز کردیتے ہیں۔
ایک امت جب اپنے دورِ زوال میں پہنچ جائے تو جذباتی شعلہ بیانی کا کوئی کام نہیں رہتا۔ اس وقت کرنےکا کام یہ ہوتا ہے کہ افراد کو ذہنی غذا دی جائے۔ افراد کو عروج و زوال کے قوانین بتائے جائیں۔ اس معاملےمیں قرآن کی دو رہنما آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: کیا ایمان والوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی نصیحت کے آگے جھک جائیں۔ اور اس حق کے آگے جو نازل ہوچکا ہے۔ اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے۔ اور ان میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں۔ جان لو کہ اللہ زمین کو زندگی دیتا ہے اس کی موت کے بعد، ہم نے تمہارے لیے نشانیاں بیان کردی ہیں، تاکہ تم سمجھو (57:16-17)۔قرآن کی ان آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زوال یافتہ امت کو دوبارہ زندہ کرنے کا آغاز افراد کو خاشع بنانے سے ہوتا ہے، نہ کہ جذبات کی بنیاد پر کئے گئے اقدام سے۔