شدید تر زلزلہ
فروری ۱۹۸۳ میں آسٹریلیا میں ایڈیلیڈ (Adelaide) کے علاقہ میں آگ لگی۔ اکہتّر آدمی جل کر مرگئے ۔ اور آٹھ ہزار آدمی بے گھر ہو گئے ۔ اس کو بجھانے کی کوشش کرنے والوں میں سے ایک شخص نے کہا :
It was man versus nature and although it may sound dramatic no amount of resources or of bravery would have helped.
یہ انسان اور فطرت کا مقابلہ تھا اور اگر چہ یہ ڈرامائی معلوم ہوتا ہے مگر وسائل یا بہادری کی کوئی بھی مقدار اس موقع پر مددگار نہیں ہو سکتی تھی (گار جین ۲۷ فروری ۱۹۸۳)
زلزلہ کے بارے میں یہ نہایت صحیح تبصرہ ہے ۔ زلزلہ خدا کی اس بے پناہ طاقت کا ابتدائی تعارف ہے جو قیامت کی صورت میں آئندہ ظاہر ہونے والی ہے ۔ ایک وقت آنے والا ہے جب کہ خدا موجودہ دنیا کو ایک عمومی اور شدید تر زلزلہ کے ذریعہ توڑ دے اور کوئی انسان اس کے مقابلہ میں کچھ نہ کر سکے۔
اس دن پہاڑ ریت کے ذروں کی طرح بکھر جائیں گے۔ سمندر شدید تلاطم کی بنا پر خشکی کے اوپر بہہ پڑیں گے ۔ بڑے بڑے شہر آندھی کے تنکے کی طرح زمین بوس ہو جائیں گے ۔ ساری دنیا میں انسان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی جہاں بھاگ کر وہ پناہ لے سکے۔
یہ موجودہ دنیا کے خاتمہ اور نئی دنیا کے آغاز کا دن ہو گا۔ آج کی دنیا میں انسان کو جو کچھ ملا ہے وہ برائے امتحان ملاہے۔ اگلی دنیا میں آدمی کو جو کچھ ملے گا وہ عمل کی جزا کے طور پر ملے گا۔
اس دن دنیا کا خالق و مالک ظاہر ہو کر تمام انسانوں کا حساب کرے گا۔ اچھے لوگ ایک طرف اور برے لوگ دوسری طرف کر دیئے جائیں گے۔ اچھے لوگوں کے لیے اچھی زندگی ہوگی اور برے لوگوں کے لیے بری زندگی۔ ہر ایک اپنے اپنے انجام کو ابدی طور پر بھگتتا ر ہے گا۔
آج کا زلزلہ کل کے شدید تر زلزلہ کی تمہید ہے۔ عقل مند وہ ہے جو آج کے آئینہ میں کل کو دیکھ لے۔ جو کل کے آنے سے پہلے کل کی تیاری میں لگ جائے ۔ کیوں کہ تیاری کا جو کچھ موقع ہے وہ آج ہے۔ کل کا دن صرف بھگتنے کا دن ہوگا نہ کہ تیاری کرنے کا دن۔
زلزلہ کو جاننے والا وہ ہے جو آج کے زلزلہ میں کل کے زلزلہ کو دیکھ لے۔