روزہ اور عید
حدیث میں آیا ہے کہ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں۔ ایک خوشی افطار کے وقت ، اور ایک خوشی اس وقت جب کہ وہ اپنے رب سے ملے گا ۔
لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ؛ فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ وَفَرْحَةٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّهِ)متفق علیہ:بخاری ،۷۴۹۲مسلم،۱۱۵۱(
روزہ میں آدمی صبح سے شام تک بھوک اور پیاس کو برداشت کرتا ہے ۔ یہاں تک کہ سورج غروب ہوتا ہے اور وہ روزہ توڑ کر کھانا کھاتا ہے اور پانی پیتا ہے۔ اس وقت آدمی کی وہ حالت ہو جاتی ہے جس کے بارے میں حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں : ذَهَبَ الظَّمَأُ، وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللهُ(سنن ابوداود،۲۳۵۷)
)پیاس چلی گئی اور رگیں تر ہو گئیں اور اجر ثابت ہو گیا ، ان شاء اللہ(
روزہ اور افطار دونوں دو مختلف تجربے ہیں۔ اس اعتبار سے وہ دنیا کی اور آخرت کی تمثیل ہیں۔ دنیا میں آدمی پابندیوں اور ذمہ داریوں میں بندھا ہوا ہے۔ آخرت میں وہ خوشیوں اور لذتوں سے محظوظ ہونے کے لیے آزاد کر دیا جائے گا۔ اس طرح روزہ کا وقت گویا دنیا کی علامت ہے ، اور افطار کا وقت آخرت کی علامت ۔ رمضان کا مہینہ دنیا کی زندگی کو بتا رہا ہے ، اور عید ، جو زیادہ بڑے افطار کا دن ہے۔ آخرت کی زندگی کا تعارف کراتی ہے۔
آدمی کو چاہیے کہ رمضان کے دنوں میں جب وہ روزہ رکھے تو روزہ اس کے لیے دنیوی زندگی کی پہچان بن جائے۔ روزہ کی حالت میں اس کی نفسیات یہ ہو کہ جس طرح میں نے کھانے اور پینے سے اپنے آپ کو روکا ہے ، اسی طرح مجھے خدا کی منع کی ہوئی تمام چیزوں سے رکے رہنا ہے۔ اس دنیا میں مجھے عمر بھر ایک روزہ دار زندگی گزارنا ہے۔
اس کے بعد جب شام ہو اور وہ روزہ ختم کر کے افطار کرے تو اس کا احساس یہ ہو کہ گویا وہ عالم آخرت میں پہنچ گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی مہمانی کی جارہی ہے ۔ آنسوؤں کی بارش میں وہ پکار اٹھے کہ خدایا ، میں نے تیری خاطر’’روزہ‘‘رکھا، اب تو میرے لیے ’’افطار‘‘کی زندگی لکھ دے ۔ میں نے تیرے لیے رمضان کو پورا کیا، اب تو میرے اوپر ابدی عید کی لامحدود نعمتوں کے دروازے کھول دے۔
مومن کے لیے روزہ ، دنیا کی زندگی کا تجربہ ہے اور افطار ، آخرت کی زندگی کا تجربہ۔