حد سے باہر
اخبار قومی آواز (۲۴ اکتوبر ۱۹۹۰) میں ایک صاحب کا مضمون “بابری مسجد - رام جنم بھومی تنازعہ” کے بارے میں چھپا ہے۔ اس کا عنوان ہے ––––– ‘‘ضرورت ہے رام چرن داس اور امیر علی کی ’’۔اس مضمون میں اجودھیا کے مسئلہ کی سنگینی کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے :
“بات ۱۸۵۷ کی ہے۔ (اس وقت بھی بابری مسجد اور رام جنم کے تنازعہ نے ہندوؤں اور مسلمانوں میں کشیدگی پیدا کر دی تھی) فیض آباد ضلع گز یٹیر سے پتہ چلتا ہے کہ اجودھیا کے مقامی مسلم رہنما امیرعلی اور (مقامی )ہندو رہنما بابا رام چرن داس نے رام جنم بھومی اور بابری مسجد کے تنازعہ کا حل تلاش کرنے کی غرض سے دونوں فریقوں کی طرف سے معاہدہ کیا کہ جنم بھومی کی مخصوص متنازعہ اراضی ہندوؤں کو سونپ دی جائے۔ اس کے عوض با با رام چرن داس نے ہندوؤں کو اس پر آمادہ کیا کہ وہ پوری عمارت پر قابض ہونے کا مطالبہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیں گے تاکہ مسلمانوں کو مسجد نہ ہٹانا پڑے”۔
اس مضمون سے بظاہر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آج رام چرن داس اور امیر علی جیسے لوگ موجود نہیں ہیں۔ اگر ایسے افراد آج ہوتے تو مسئلہ فوراً حل ہو جاتا۔ مگریہ بات خلاف واقعہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی رام چرن داس اور امیر علی جیسے لوگ موجود ہیں اور سیکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ لیکن وہ موثر ثابت نہیں ہو رہے ہیں۔ ایسی حالت میں اصل سوچنے کی بات یہ ہے کہ ۱۸۵۷ کے رام چرن داس اور امیر علی مسئلہ کوحل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے، مگر آج کے رام چرن داس اور امیر علی مسئلہ کو حل کرنے میں سراسرنا کام ہو رہے ہیں ، اس کا سبب کیا ہے۔
اس کا سبب بالکل سادہ ہے۔ ۱۸۵۷ میں یہ مسئلہ ایک مقامی مسئلہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہ اجودھیا کے دو فرقوں کا مسئلہ تھانہ کہ سارے ملک میں بسنے والی دو قوموں کا مسئلہ ۔ اس وقت بابری مسجد کے نام پر کوئی آل انڈیا یا انٹرنیشنل تنظیم نہیں بنی تھی جو اس کو بڑھا چڑھا کر تمام ہندوؤں اور تمام مسلمانوں کے لیے وقار کا مسئلہ بنا دے۔
دو قوموں کے درمیان جب کوئی نازک مسئلہ پیدا ہو تو اس کو ہمیشہ مقامی دائرہ میں باقی رکھنا چاہیے مسئلہ کا مقامی دائرہ میں رہنا اس کا محدود دائرہ میں رہنا ہے مگر مسئلہ جب قومی اور ملکی سطح پر پھیلا دیا جائے تو اس وقت وہ غیر محدود دائرہ میں چلا جاتا ہے۔ اور پھر ناممکن ہو جاتا ہے کہ کوئی ہندو یا کوئی مسلمان اس کو حل کر سکے۔