اخلاق رسول
اسلام کی ابتدائی تاریخ میں ایک غزوہ وہ ہے جس کو ذات الرقاع کہا جاتا ہے۔ یہ جمادی الاول ۴ھ میں پیش آیا ، اس غزوہ کے واقعات میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ سفر کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مقام پر آرام فرما ر ہے تھے ۔ آپ کی تلوار درخت کی شاخ سے لٹکی ہوئی تھی ۔
اس وقت آپ تنہا تھے۔ ایک مشرک غورث بن الحارث نے آپ کو اس حالت میں دیکھ لیا۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے فاتحانہ انداز میں کہا کہ کیا میں تمہارے لیے محمد کو قتل نہ کر دوں (ألا أقتل لكم محمدا) انھوں نے کہاں ہاں (قالوا بلیٰ) اس کے بعد وہ خاموشی سے وہاں پہونچا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تنہا لیٹے ہوئے تھے۔ اس نے درخت سے تلوار اتاری اور ہاتھ میں ننگی تلوار لے کر آپ کے پاس کھڑا ہو گیا۔
اس نے کہا کہ اے محمد ، اب کون تم کو مجھ سے بچا سکتا ہے (مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي؟ يا محمد) آپ نے فرمایا :اللہ۔ آپ کی زبان سے پر اعتماد لہجہ میں "اللہ " کا نام سن کر مشرک پر مصیبت طاری ہوگئی۔ اس نے تلوار رکھ دی۔ اب آپ نے وہ تلوار اپنے ہاتھ میں لے لی اور اس سے کہا کہ بتاؤ، اب تم کو کون میرے ہاتھ سے بچائے گا۔ اس نے کہا کہ آپ بہتر صاحب تلوار بنیں (كُنْ خَيْرَ آخِذٍ) اس کے بعد آپ نے اس کو چھوڑ دیا اور کہا کہ جاؤ میں نے تم کو معاف کیا ۔
اس واقعہ کے بعد وہ مشرک اپنے قبیلہ میں واپس چلا گیا۔ وہی شخص جو اپنے قبیلہ سے یہ کہہ کر گیا تھا کہ میں محمد کو قتل کرنے جارہا ہوں ، اب ان سے یہ کہنے لگا کہ میں ایک ایسے آدمی کے پاس سے آیا ہوں جو تمام انسانوں میں سب سے بہتر انسان ہے (جِئْتُكُمْ مِنْ عِنْدِ خَيْرِ النَّاسِ) سيرة ابن كثير ۱۶۴/۳
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر مذکورہ مشرک کی گستاخی اور اس کے جرم پر اس کو قتل کر دیتے تو اس کے قبیلہ میں یہ خبر پہونچتی کہ محمد نے ہمارے آدمی کو قتل کر دیا۔ اس خبر سے قبیلہ والوں میں انتقامی احساس جاگتا۔ مگر اب قبیلہ والوں میں یہ خبر پہونچی کہ محمد بہترین اخلاق کے آدمی ہیں۔ انھوں نے مجرم پر قابو پانے کے باوجود اس کو معاف کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اندر اخلاقی احساس جاگ اٹھا۔ پہلے مذکورہ شخص (غورث بن الحارث) نے اسلام قبول کیا اور اس کے بعد اس کا پورا قبیلہ اسلام میں داخل ہو گیا۔ ایک روش کی صورت میں وہاں انتقام کی ہوائیں چلتیں ، دوسری روش کی صورت میں وہاں دین رحمت کی ہوائیں چل پڑیں ۔