تقوی ٰاور اخلاق
سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْثَرِ مَا يُدْخِلُ النَّاسَ الجَنَّةَ، فَقَالَ: «تَقْوَى اللَّهِ وَحُسْنُ الخُلُقِ» (رواه الترمذی،۲۰۰۴)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیا کہ وہ کیا چیزہے جو سب سے زیادہ لوگوں کو جنت میں لے جائے گی۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ کا ڈر ، اور اچھا اخلاق ۔
انسان خدا کا بندہ ہے۔ اسی کے ساتھ موجودہ دنیا میں اس کو دوسرے انسانوں کے ساتھ رہنا ہوتا ہے ۔ اس طرح آدمی بیک وقت دو تعلق کے درمیان ہوتا ہے ۔ ایک خدا سے تعلق ۔ اور دوسرا، انسانوں سے تعلق ۔ اس اعتبار سے انسان کے امتحان کے دو پہلو ہو جاتے ہیں۔ اور امتحان کے ان دونوں پر چوں میں اس کو پورا اترنا ہے۔
خدا کی نسبت سے جو چیز مطلوب ہے وہ یہ کہ آدمی خدا کو اپنا خالق ومالک سمجھے ۔ وہ خدا کی عظمتوں کے احساس سے سرشار ہو۔ اس عقیدہ اور اس احساس سے کسی کے اندر جو قلبی کیفیت پیدا ہوتی ہے، اسی کا نام تقویٰ ہے ۔
خدا بڑا ہے ، انسان چھوٹا ہے ۔ خداقا در ہے ، انسان عاجز ہے۔ خدا دینے والا ہے ، انسان پانے والا ہے ۔ ان حقیقتوں کا شعور آدمی کے اندر اعتراف اور تواضع اور مسؤولیت کا احساس پیدا کرتا ہے۔ اس کے اندر سرکشی کا مزاج ختم ہو جاتا ہے ۔ وہ خدا کی محبت اور خوف کے جذبات کے تحت دنیا میں زندگی گزارنے لگتا ہے ۔
اس قسم کا انسان جب دوسرے انسانوں کے درمیان آتا ہے ، تو ان سے معاملہ کرتے ہوئے اس کی پوری روش حسن اخلاق میں ڈھل جاتی ہے ۔ اس کا بول تواضع کا بول ہوتا ہے۔ اس کا عمل انصاف کا عمل ہوتا ہے ۔ وہ ایک ایسے انسان کی طرح زندگی گزارنے لگتا ہے جو یہ دیکھ رہا ہو کہ اس کے اوپر اس کا خدا کھڑا ہوا اس کی نگرانی کر رہا ہے۔ وہ اس کے ہر قول وفعل کا حساب لینے والا ہے ۔ ایسے انسان سے جو اخلاق ظا ہر ہو ، اسی کا نام حسن خلق ہے ۔
جو آدمی ان دونوں امتحانوں میں پورا اترے ، وہی وہ شخص ہے جس کو جنت کے ابدی باغوں میں داخل کیا جائے گا۔