بابری مسجد کا مسئلہ

بابری مسجد - رام جنم بھومی کا مسئلہ یقینی طور پر حل ہو سکتا ہے۔ جس چیز نے اس کو اب تک لا ینحل بنا رکھا ہے وہ خود مسئلہ نہیں ہے بلکہ طریق ِکار ہے۔ دنیا میں اس سے بھی زیادہ بڑے بڑے مسئلے حل کئے گئے ہیں اور آج بھی حل ہو رہے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہ مسئلہ حل نہ ہو سکے ۔ لیکن جب طریق کارہی غلط اختیار کیا جائے تو کوئی بھی مسئلہ حل نہیں کیا جاسکتا۔ خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا۔

 اس معاملہ میں جو لوگ اب تک براہ راست شریک رہے ہیں، ان کے پیش نظر بد قسمتی سے لیڈری زیادہ رہی ہے اور مسئلہ کا حل کم۔ اس لیے   وہ اس معاملہ میں سنجیدہ طریق کار اختیار نہ کرسکے۔

 دونوں فریق کی طرف سے اب تک جس طریقے کا مظاہرہ کیا گیا ہے وہ صرف ایک ہے۔ یعنی دعویٰ اور جواب دعوی ۔ پریس یا پلیٹ فارم کے ذریعہ اب تک اس معاملہ میں دونوں فریق کے ذریعہ جو کیا گیا ہے وہ زیادہ تر یہی ہے ۔ مگر اس طرح کے نازک مسئلہ کے حل کے لیے   یہ طریقہ بنیادی طور پر غیر مفید ہے۔ اس طرح کے نزاعات میں اگر صرف دعوی اور مطالبہ کا طریقہ اختیار کیا جائے تو ہمیشہ ایسا ہوگا کہ ہر فریق دوسرے فریق کے جواب میں اپنے موافق کچھ الفاظ بول دے گا ،اور پھر مسئلہ وہیں کا وہیں پڑا رہے گا۔

اس معاملہ میں اصلی اور پہلا کام یہ ہے کہ دونوں فریق کسی تیسرے فریق (تھرڈ پارٹی) کو تلاش کریں جس کا فیصلہ انھیں منظور ہو سکے۔ وہ پیشگی طور پر راضی ہو جائیں کہ یہ تیسرا فریق جو فیصلہ دے گا اسے دونوں فریق بلا بحث مان لیں گے۔

اس طرح کے کیس میں عدالت یہ تھرڈ پارٹی نہیں بن سکتی۔الا یہ کہ عدالتی فیصلہ سامنے آنے سے پہلے دونوں فریق اس کا باضابطہ اقرار نامہ دے چکے ہوں کہ عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی، اس کو وہ لازمی طور پر مان لیں گے۔بصورت دیگر ایسا ہوگا کہ عدالت کا فیصلہ جس فریق کے موافق ہوگا وہ اس کو مانے گا ، اور جس فریق کے خلاف ہو گا وہ اس کو ماننے سے انکار کر دے گا۔ اس طرح مسئلہ دوبارہ وہیں آجائے گا جہاں وہ پہلے تھا۔

 عدالت کا فیصلہ اس وقت کام کرتا ہے جب کہ معاملہ ایک فرد یا چند افراد کا ہو۔ ایسی صورت میں فرد یا افراد  اگر عدالتی فیصلہ کونہ مانیں تو پولیس اس بات کی ضمانت ہوتی ہے کہ انھیں ماننے پر مجبور کیا جاسکے ۔ مگر بابری مسجد - رام جنم بھومی کا مسئلہ دو افراد کا مسئلہ نہیں بلکہ دو قوموں کا مسئلہ بن گیا ہے۔ اور جس مسئلہ میں دو پوری قوم شامل ہو جائے۔ اس میں عدالت کا فیصلہ قوم کی مرضی ہی سے نافذ کیا جاسکتا ہے۔ قوم کی مرضی کے بغیر ایسے فیصلہ کا نفاذ ممکن نہیں۔

یہی خاص فرق ہے جس کی بنا پر مسلمانوں کے لیے   یہ ممکن ہوا کہ وہ شاہ بانو کیس کے معاملہ میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو نہ مانیں ، اور ان کا نہ ماننا سپریم کورٹ کے فیصلہ کو بے اثر بنا دے۔ اگر اس کی حیثیت صرف شخصی معاملہ کی ہوتی تو یہ ناممکن تھا کہ شاہ بانو کے شوہرمحمد احمد کے انکار سے ایک عدالتی فیصلہ کا لعدم ہو کر رہ جائے۔

میرے نز دیک اس مسئلہ کا واحد قابل ِعمل حل یہ ہے کہ دونوں فریق ثالثی (arbitration) کے اصول پر راضی ہو جائیں ۔ دونوں فریق پیش گی طور پر تحریری اقرار نامہ دیں کہ یہ ثالث ( تھرڈ پارٹی )جوبھی فیصلہ دے گا اس کو وہ بلا بحث مان لیں گے۔ فیصلہ کے بعد وہ اس کے خلاف مزید کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔ تقریباً چار سال پہلے یہ  مسئلہ اس حل کے کنارے پہنچ چکا تھا مگر بعض مسلم لیڈروں کی ناقابل ِفہم نادانی کی بنا پر وہ عملاً و اقعہ نہ بن سکا۔

ایک تاریخی میٹنگ

یہ ۲۷ مارچ ۱۹۸۷ کی بات ہے ۔ نئی دہلی کے وٹھل بھائی پٹیل ہاؤس میں اسی خاص مسئلہ پر ایک خصوصی میٹنگ ہوئی۔ اس میں ہندو سائڈ اور مسلم سائڈ دونوں طرف کے ذمہ دار لوگ جمع ہوئے ۔ہند وسائڈ سے جو لوگ شریک ہوئے ، ان میں دوسرے ذمہ داروں کے علاوہ مہنت اوید ناتھ بھی تھے جو ر ام جنم بھومی مکتی یگیہ سمتی کے صدر ہیں اور وشو ہندو پریشد کے ٹکٹ پر ایم پی بھی ہیں۔ مسلم سائڈ سے جو لوگ شریک ہوئے ، ان میں سید شہاب الدین صاحب اور دوسرے ذمہ دار حضرات موجود تھے۔

 اس میٹنگ میں، میں بھی خصوصی دعوت پر شریک تھا۔ پہلے حسب عادت دونوں فریق اپنا اپنا دعویٰ پیش کرتے رہے اور ایک دوسرے کی بات کا جواب دیتے رہے ۔ دعوی اور اس کی تردید کا یہ سلسلہ دیر تک جاری رہا۔

آخر میں ،میں نے کہا کہ یہ طریقہ مسئلہ کو حل کرنے کا نہیں ہے۔ مسئلہ کے عمل کی واحد تد بیر یہ ہے کہ دونوں فریق ایک تھرڈ پارٹی کو ثالث بنانے پر راضی ہو جائیں اور پیشگی اس بات کا تحریری اقرار کریں کہ یہ تھرڈ پارٹی جو فیصلہ دے گی اس کو وہ منظور کریں گے۔ میں نے کہا کہ اس تھرڈ پارٹی کے لیے   سب سے بہتر باڈی مورخین کی ہوسکتی ہے۔ چنانچہ میں نے تجویز پیش کی کہ ہندستان سے مسلمہ مورخین جنھوں نے انڈین ہسٹری کا باقاعدہ مطالعہ کیا ہو ان کا ایک منتخب بورڈ بنا دیا جائے اور اس کو پورا اختیار دیا جائے کہ وہ تاریخی حقائق کی روشنی میں اپنا قطعی فیصلہ دے۔ وہ جو فیصلہ دے اس کو دونوں فریق بلا بحث مان لیں۔

 میری اس تجویز کو ہندو سائڈ نے کسی بحث کے بغیر پوری طرح مان لیا۔ حتی کہ وہ میری تجویز کے اس جز پر بھی راضی ہو گئے کہ اس بورڈ کے تقرر کو کسی بھی حال میں نظیر نہیں بنایا جائے گا، اور آئندہ کسی اور مسجد یا مساجد کے لیے   اس قسم کے باب ہر گز نہیں کھولے جائیں گے۔ مہنت اوید ناتھ نے اس کو اتنا زیادہ پسند کیا کہ انھوں نے کھڑے ہو کر میرے ساتھ تصویر کھینچوائی۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس تجویز کو فائنل کرنے کے لیے   جلد ہی دوسری میٹنگ بلائی جائے۔

 مگر عین اس وقت ایک’’حادثہ ‘‘پیش آیا جس نے سارے معاملہ کو بگاڑ دیا۔ وہ یہ کہ جناب سید شہاب الدین صاحب ناقابل ِفہم طور پر اس کے مخالف ہو گئے۔ وہ اس مخالفت میں اتنا شدید ہوئے کہ تقریباً چیخنے لگے۔ حتی کہ ان کی چیخ پکار میں میٹنگ ختم ہو گئی ۔

اس میٹنگ میں جماعت اسلامی کے نمائندہ کے طور پر افضل حسین صاحب مرحوم بھی موجود تھے۔ مگر وہ مکمل طور پر خاموش رہے ۔ اگر مسلم نمائندوں نے اس موقع پر نا قابل فہم حد تک نادان رول نہ ادا کیا ہوتا تو یہ مسئلہ ۱۹۸۷ میں ہی ختم ہو جاتا اور ملک اور خاص طور پر مسلمان ان اندوہناک نقصانات سے بچ جاتے جو بعد کو اسی کے نتیجہ میں پیش آئے اور موجودہ سطروں کے لکھنے تک پیش آرہے ہیں۔

 آج بھی اگر اس مسئلہ کا کوئی حل ہے تو یہی ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ مسلمانوں کے لیڈر صاحبان پچھلے تلخ تجربات کے بعد اب اس تجویز کی اہمیت کو محسوس کریں گے اور ذاتی وقار کا خیال کیے بغیر اس کی تائید کریں گے۔ نیز ہندو سائڈ جو ۲۷ مارچ ۱۹۸۷ کو اس تجویز کو منظور کر چکی تھی، وہ دوبارہ اس کو مان کر مسئلہ کے حل کا قابل عمل راستہ نکالے گی۔

مسجد اسلام میں

اب میں مسجد کے بارے   میں مسلم نقطۂ نظرکو بتانا چاہتا ہوں۔ یہ بات صحیح ہے کہ مسجد اسلامی شریعت کے مطابق ایک مقدس جگہ ہے۔ جب ایک مقام پر مسجد بنادی جائے تو وہ جگہ ہمیشہ کے لیے   مسجد ہو جاتی ہے اور مسلم عقیدہ کے مطابق اس کوکسی بھی طریقہ پر ختم یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

مگر یہاں مسجد کے بارے میں یہ شدید مسلم عقیدہ ہے۔ اسی کے ساتھ خود مسلم عقیدہ کے مطابق یہ مسئلہ بھی ہے کہ اگر مسجد غصب کی جگہ پر یانا جائز جگہ پر بنائی جائے تو وہ مسجد نہیں ہوگی۔ وہاں نماز پڑھنا نا جائز ہوگا۔ ایسی حالت میں مسلمانوں پر یہ فرض ہوگا کہ وہ اس جگہ کو اس کے اصل مالک کی طرف واپس لوٹا دیں۔

اجودھیا کی مذکورہ عمارت کے حل کے لیے   اگر مذکورہ تدبیر اختیار کی جائے تو وہ کسی بھی اعتبار سے مسلم عقیدہ سے نہیں ٹکراتی ۔ اگر مورخین کا بور ڈ یہ فیصلہ کرے کہ موجودہ عمارت جائز طور پر مسجد کی حیثیت سے بنائی گئی تھی تو اس کی موجودہ حیثیت علیٰ حالہ بر قرار رہے گی۔ اس کے برعکس اگر مورخین کا بورڈ تاریخی حقائق کے حوالہ سے یہ فیصلہ دیتا ہے کہ موجودہ عمارت کی حیثیت جائز طور پر تعمیر کردہ مسجد کی نہیں ہے تو ایسی حالت میں اس کو اصل مالکوں کی طرف لوٹا دینا ہی شریعت کا تقاضا ہوگا۔

 بالفرض اگر مورخین کے بورڈ کا فیصلہ مسلمانوں کے موجودہ دعوی ٰکے مطابق نہ ہوتب بھی مسلمانوں کو اسے قبول کر لینا چاہیے   کیوں کہ مورخین کے فیصلہ کے بعد وہ ذاتی طور پر بری الذمہ ہو جاتے ہیں اس کے بعد خالص شرعی اعتبار سے ان کی کوئی پکڑ نہیں ہے۔ اس کے بعد خدا کے یہاں اگر کسی کی ذمہ داری ہے تو وہ مورخین کا بورڈ ہے نہ کہ مسلمان۔

ثالثی کا مسئلہ

یہاں میں ثالثی کے اسلامی اصول کے بارے   میں مختصر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔

 قرآن میں ثالث (arbiter) کا اصول بتایا گیا ہے۔ بیوی اور شوہر میں باہمی نزاع ہو تو اس کو حل کرنے کے لیے   یہ طریقہ بتایا گیا ہے کہ دو افراد کا ایک ثالثی بورڈ مقرر کر کے اس کو حل کیا جائے( ۴ : ۳۵ ) قرآن کے انگریز ی مترجم عبداللہ یوسف علی نے اس اصول کو بجا طور پر خاندانی جھگڑے کو حل کرنے کا بہترین طریقہ کیا ہے :

An excellent plan for settling family disputes.

قرآن میں یہ حکم ابتدا ء ً خاندانی نزاع کو حل کرنے کے لیے   آیا تھا۔ اس کے بعد یہ مسلم قانون کا ایک مستقل جز ء بن گیا اور اسلامی تاریخ میں بار بار نزاعی معاملات اس اصول کے ذریعہ حل کئے گئے۔ یہاںمیں اس نوعیت کی ایک مثال مختصراً  درج کرنا چاہتا ہوں۔

 بنو امیہ کے زمانہ میں دمشق میں جامع مسجد بنائی گئی جو ۷۱۵ء میں مکمل ہوئی ۔ وہ آج بھی وہاں موجود ہے۔ اس مسجد کے بارے   میں شام کے عیسائیوں کو یہ شکایت تھی کہ اس میں ایک قدیم چرچ کا حصہ بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ عمر بن عبد العزیز ۷۱۷ء میں خلیفہ مقرر ہوئے ۔ ۷۲۰ء میں خلیفہ کی حیثیت سے ان کا انتقال ہوا۔

حضرت عمر بن عبد العزیز جو اسلامی تاریخ میں عمرثانی کہے جاتے ہیں ، ان کے پاس شامی عیسائیوں کا ایک وفد آیا ۔ اس نے شکایت کی کہ پچھلے خلیفہ نے ہمارے چرچ کو مسجد میں شامل کر دیا تھا۔ اب آپ انصاف کریں ۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے محمد بن سوید النھری کو ثالث مقرر کیا۔ انھوں نے تحقیق کر کے بتایا کہ عیسائیوں کی شکایت درست ہے۔ اس کے بعد عمر بن عبد العزیز نے حکم دیا کہ مسجد میں گرجا کا جو حصہ ہے وہ پوری زمین عیسائیوں کو دے دی جائے۔

تاہم اس حکم پر عمل در آمد کی نوبت نہیں آئی ۔ کیوں کہ عیسائی اصلاً  اسلامی انصاف کو آزماناچاہتے تھے۔ انھوں نے اس کو آزمایا اور اس کو پورا پایا۔ اس کے بعد انھوں نے اعلان کر دیا کہ ہم اپنی خوشی سے یہ حصہ مسلمانوں کے عبادت خانہ کے لیے   دیتے ہیں۔( خلیفۃ الزاہد عمر بن عبد العزیز )

اوپر جو بات کہی گئی ، وہ دینی اور تاریخی دونوں اعتبار سے انتہائی واضح ہے۔ مسلمانوں کے نام نہا د سیاسی لیڈروں کی بابت میں کوئی پیشگی اندازہ نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ وہ کسی اصول کے پابند نہ ہونے کی بنا پر قابل پیشن گوئی کر دار (predictable character) کے حامل نہیں ۔ تاہم میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مسلم علماء اور مسلم عوام دونوں میری اس تجویز سے اتفاق کریں گے۔ یہ تجویز عین شرعی حدود کے مطابق ہے، اس لیے   مسلم علماء کے لیے   اس کو قبول کرنا مشکل نہیں ہو سکتا۔ اور جہاں تک مسلم عوام کا تعلق ہے ، وہ ہر چیز سے پہلے پر امن زندگی چاہتے ہیں، اور یہ تجویز بلا شبہ ان کے لیے   اس ملک میں پر امن زندگی کی یقینی ضمانت ہے۔

ایک انتباہ

میرا یہ مضمون اس سے پہلے انگریزی زبان میں نئی دہلی کے روزنامہ ہندستان ٹائمس کے شمارہ ۶جنوری ۱۹۹۱ میں چھپا تھا۔ انگریزی اخبار میں اس کی اشاعت کے بعد ایک مسلم دانشور کا ٹیلیفون ملا۔ انھوں نے کہا کہ آپ نے اپنے مضمون میں جو تجویز پیش کی ہے، وہ بہت پسندیدہ اور معقول ہےمگر آپ نے اس کو پیش کرنے میں تاخیر کر دی۔ یہ تجویز آپ کو بہت پہلے پیش کرنا چاہیے   تھا۔

 مذکورہ مسلم دانشور کے اس تبصرہ پر مجھے سخت تعجب ہوا۔ کیوں کہ عین اسی مضمون میں یہ بتایا گیا ہے کہ ثالثی کی یہ تجویز میں نے ۲۷ مارچ ۱۹۸۷ کو نئی دہلی کے ایک باضابطہ اجتماع میں پیش کی تھی۔ اس وقت میں نے اس کو زیادہ تفصیل کے ساتھ اس کے تمام ضروری اجزاء کے ساتھ بیان کیا تھا۔ اس میٹنگ میں ہندو اور مسلمان دونوں طرف کے اعلیٰ ذمہ دار اور نمائندے موجود تھے۔

 اس واضح حقیقت کے باوجود مذکورہ مسلم دانشور نے ایسی بات کیوں کہی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے لیڈر اور ہمارے دانشور ایک عرصہ سے ’’خارجی عذر‘‘کی اصطلاح میں سوچنے کے عادی ہو گئے ہیں ۔ وہ ہر ٹھوس بات کے مقابلہ میں ایک خارجی عذر کا حوالہ دے کر اسے رد کر دیتے ہیں۔ یہ مزاج بلا شبہ موجودہ زمانے میں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس مزاج کو ختم کرنا انتہائی ضروری ہے ورنہ ہم نہ کسی منصوبہ پر عمل کر سکیں گے اور نہ امکانات کو استعمال کرنے میں کامیاب ہوں گے ۔ اس مزاج کی موجودگی میں ہماری بربادی کبھی ختم ہونے والی نہیں ۔

روشن مستقبل الرسالہ جنوری ۹۱ خصوصی نمبر کے طور پر بعنوان ’’روشن مستقبل‘‘شائع کیا گیا تھا۔ جس میں ملک کے موجودہ حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا تھا۔ اب اس شمارہ کو علاحدہ سے ایک مستقل کتابچہ کی صورت میں شائع کیا گیا ہے ۔ضرورت ہے کہ اس کو ہر طبقہ کے لوگوں تک پہنچایا جائے ۔ جو حضرات اس کو زیادہ تعداد میں منگوا کرتقسیم کر نا چا ہیں ان کو خصوصی رعایت کے ساتھ یہ کتابچہ فراہم کیا جائے گا۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom