منفی بنیاد
جمال عبد الناصر ( ۱۹۷۰ - ۱۹۱۸) شاہ فاروق کے زمانہ میں مصر کی فوج میں ایک جونیر افسر تھے ۔ ۱۹۴۸ میں مصر اور اسرائیل کے درمیان لڑائی ہوئی ۔ اس لڑائی میں جمال عبد الناصر نے اپنے دستہ کے ساتھ غیر معمولی بہادری دکھائی۔ تاہم اسرائیل جیت گیا اور مصر کو ذلت آمیز شکست ہوئی ۔
اس جنگ کے بعد جمال عبد الناصر کے دل میں سخت انتقامی جذبہ جاگ اٹھا۔ ایک طرف مصر کے شاہ فاروق کے خلاف، کیوں کہ وہ ان کی نظر میں غدار تھا، دوسری طرف اسرائیل کے خلاف ، کیونکہ وہ انہیں ظالم دکھائی دے رہا تھا۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ میں دونوں کو مٹائے بغیر چین نہیں لوں گا۔
پہلے انھوں نے مصر کی فوج کے کچھ افسروں کو ساتھ لے کر ان کی ایک خفیہ تنظیم بنائی ۔ ۲۳ جولائی ۱۹۵۲ کو جمال عبد الناصر نے ان مصری افسروں کی مدد سے شاہ فاروق کے خلاف فوجی انقلاب کیا۔ شاہ فاروق جلا وطن ہو کر روم چلے گئے جہاں ۱۸ مارچ ۱۹۶۵ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔
جمال عبد الناصر کے انتقامی جذبات کا دوسرا نشانہ اسرائیل تھا۔ انھوں نے مصر کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد روس سے ہتھیار حاصل کیے اور دوبار اسرائیل سے جنگ کی ۔ ۱۹۵۶ میں اور ۱۹۶۷ء میں۔ مگر دونوں بار انھیں مکمل شکست ہوئی۔ اسرائیل نہ صرف جیتا بلکہ اس نے اپنے مقبوضہ رقبہ کو پانچ گنا بڑھا لیا۔
جمال عبد الناصرمنفی اور انتقامی جذبہ کے تحت اٹھے تھے۔ چنانچہ یہ جذبہ ان کے اوپر اتنا زیادہ چھایا کہ ان کی ساری کارروائیاں اسی کے رنگ میں رنگ گئیں ۔ انھوں نے ۱۹۶۲ میں یمن میں اپنی فوجیں داخل کر دیں ۔ انھوں نے مصر کی اخوانی جماعت کو کچلنے کی کوشش کی۔ انھوں نے خود اپنی فوج کے بہت سے افسروں کو ہلاک کر دیا۔ وہ اسی قسم کی منفی کارروائیوں میں مشغول رہے ۔ یہاں تک کہ ۲۸ استمبر ۱۹۷۰ کو ان پر ہارٹ اٹیک ہوا اور اسی میں ان کا انتقال ہو گیا۔
جو لوگ منفی سوچ اور انتقامی جذبات سے متاثر ہو کر اٹھیں وہ آخر تک اسی میں مبتلا رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے کسی مثبت پروگرام یا کسی تعمیری عمل کی امید نہیں کی جاسکتی۔ اور بدقسمتی سے موجودہ زمانہ میں اٹھنے والے تمام مسلم رہنماؤں کا معاملہ یہی ہے۔ وہ منفی فکر کے تحت اٹھے ، اسی لیے وہ کوئی مثبت کارنامہ انجام نہ دے سکے۔