آسمانی انتظام
ابتدائی دور کی جنگوں میں صرف انسانی آنکھ دیکھنے کا کام کرتی تھی۔ اس کے بعد دور بین سے کام لیا جانے لگا۔ اب ٹکنالوجی کی ترقی نے اس کو ممکن بنا دیا ہے کہ آسمان میں گھومتی ہوئی مشینوں( سٹلائٹ) کے ذریعہ دشمن کے ٹھکانوں کو معلوم کیا جائے اور نہایت صحت کے ساتھ ان کو دور سے نشانہ بنایا جا سکے۔ خلیج کی جنگ اسی قسم کی ایک جنگ ہے۔ اس میں ایسی پیچیدہ ٹکنالوجی استعمال کی گئی جو اس سے پہلے کبھی کسی جنگ میں استعمال نہیں کی گئی تھی۔ اس اعتبار سے اس جنگ میں بہت سے نہایت اہم سبق ملتے ہیں ۔ٹائمس آف انڈیا (۳۱ جنوری ۱۹۹۱) میں خلیج کی جنگ سے متعلق اسی قسم کی ایک نصیحت آموز رپورٹ چھپی ہے۔ اس کا عنوان اخبار نے ان لفظوں میں قائم کیا ہے کہ اتحادی فوجوں کی آنکھ آسمان میں:
Eyes of the Allies in the sky
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوری ۱۹۹۱ میں عراق نے کئی درجن اسکڈ میزائل (Scuds) اسرائیل اور سعودی عرب پر پھینکے۔ مگر ان کی زیادہ تعداد درمیان ہی میں بیکار کر دی گئی۔ وہ نشانہ پر نہ پہنچ سکی۔ اس سے پہلے جو جنگیں ہوتی تھیں ان میں توپ کے گولے یا بم جب دشمن کی طرف پھینکے جاتے تھے تو ان کو راستہ کے درمیان ناکارہ کرنے کا کوئی تصور نہیں تھا ۔ پھر موجودہ جنگ میں کیوں کر ایسا ہواکہ فریق کے پھینکے ہوئے میزائل کو دوسرے فریق نے راستہ ہی میں ناکارہ کر دیا۔ اس کا جواب خاص طور پر دو امریکی سیاروں میں ہے جو ایک زمینی اسٹیشن سے کنٹرول کیے جارہے تھے ۔ یہ زمینی اسٹیشن وسط آسٹریلیا میں واقع ہے۔
اس تدبیر کو ڈیفنس سپورٹ پروگرام کہا جاتا ہے۔ امریکہ کے یہ جاسوسی سیارے ڈیڑھ سومیل اوپر زمین کے گرد گھوم رہے ہیں۔ وہ مسلسل عراق کے بارے میں معلومات دیتے رہتے ہیں ، خواہ موسمی حالات جو بھی ہوں۔ وہ نہ صرف اس وقت عراق کی تصویر لیتے ہیں جب کہ وہ براہ راست عراقی فضا کے اوپر ہوں بلکہ وہ مخصوص نظام کے تحت اس وقت بھی عراق کی تصویر حاصل کر لیتے ہیں جب کہ وہ کنارے کی طرف اڑ رہے ہوں۔
اس سیارے میں تین میٹر لمبی انفرارڈ دور بین لگی ہوئی ہے۔ جب اسکڈ میزائل چھوڑا جاتا ہے تو فضا میں اس کی سخت گرمی کے ذریعہ یہ سیارہ فوراً ہی اس کو معلوم کر لیتا ہے۔ اور عین اسی لمحہ زمین پر لگے ہوئے پیٹریٹ میزائل کو اس کی خبر دے دیتا ہے۔ اس کے بعد کمپیوٹر فوراً پیٹریٹ میزائل کو نشانہ کی طرف داغ دیتا ہے۔ میزائل فضا میں پہنچ کر اسکڈسے ٹکر اکر اس کو عین راستہ میں برباد کر دیتا ہے۔ یہ سار اکام صرف ایک منٹ کے اندر انجام پاتا ہے۔ سٹیلائٹ کے ذریعہ جاسوسی کا خاص فائدہ یہ ہے کہ وہ دشمن کی مار کی حد سے پوری طرح محفوظ رہتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دفاعی سپورٹ کا یہ پورا سیاراتی نظام ۲۴ گھنٹے عراق کا جائزہ لیتا ہے اور اس کی تصویریں بھیجتا رہتا ہے ۔ وہ ہر موسمی حالت میں یکساں طور پر کام کرتا ہے :
These Defence Support Programme satellites provide round-the-clock coverage of Iraq in all weather conditions.
یہ واقعہ تمثیل کے روپ میں یاد دلاتا ہے کہ اسی طرح ایک اور’’ آسمانی مشاہدہ‘‘ہے جو زیادہ بڑے پیمانہ پر ساری دنیا کی نگرانی کر رہا ہے۔ وہ دونوں فریقوں کو یکساں طور پر دیکھ رہا ہے۔ وہ کسی ایک ملک کو نہیں بلکہ تمام ملکوں اور تمام انسانوں کا ہر لمحہ معائنہ کر رہا ہے۔
یہ وہ برتر مشاہد ہ ہے جو خدائی نظام کے تحت قائم ہے ۔ خدائی مشاہدے کا یہ نظام اس لیے قائم کیا گیا ہے تاکہ وہ ظالم کے ظلم کا توڑ کرے، تاکہ وہ مجرم کے خلاف بروقت مداخلت کر کے اس کے مفسدانہ منصوبہ کو ناکام بنائے اور جو شخص حق پر ہے اس کی مدد کر کے اسے کامیاب کر دے۔
جب بھی کوئی شخص کسی کے خلاف برا اقدام کرے تو اس کو جاننا چاہیے کہ اس کے اقدام کا نا کام ہو جانا یقینی ہے ۔ اس کے برے اقدام کو خدا کے فرشتے درمیان ہی میں مداخلت کر کے بے اثر کردیں گے۔خدا کی دنیا میں کوئی فاسد منصوبہ کبھی اپنی تکمیل تک پہنچنے والا نہیں۔
موجودہ دنیا آزمائش کی دنیا ہے۔ آزمائش کی مصلحت کی بنا پر یہاں ہرشخص کو آزادی حاصل ہے۔ ہر شخص کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جو چاہے کرے اور جو چاہے نہ کرے۔ اس آزادی کی بنا پر کبھی ایک آدمی دوسرے آدمی کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
مگریہ آزادی لا محدود نہیں ہے۔ آزادی دینے کے ساتھ خدا لوگوں کی نگرانی بھی کر رہا ہے۔ وہ کسی کو یہ موقع نہیں دیتا کہ وہ اپنی آزادی کو بے قید اور لامحدود انداز میں استعمال کرے ۔ ایک حد کے بعد خدا آدمی کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے۔ ایک حد کے بعد وہ آدمی کو اس سے روک دیتا ہے کہ وہ اپنی آزادی کو دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرے۔
خدا کا وعدہ ہے کہ وہ مشکل کے وقت ضرور اپنے بندہ کی مدد کرتا ہے۔ کبھی مشکل پیش آنے کے بعد فورا ً اور کبھی مشکل پیش آنے کے کچھ دیر بعد ۔ خدا کی یہ مدد کبھی ایک صورت میں آتی ہے اور کبھی دوسری صورت میں۔ اس کی کوئی ایک مقرر اور متعین صورت نہیں۔