نفع بخشی کی طاقت
ہندستان ٹائمس (۲۰ جولائی ۱۹۹۰) کے نمائندہ مقیم ماسکو مسٹر بھا بنی سین گپتا نے سوویت یونین کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی ہے، اس کا عنوان ہے ––––– ایک نیا روس ابھر رہا ہے :
A new USSR is emerging
اس رپورٹ میں سوویت روس میں ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ آخر میں لکھتے ہیں کہ بین اقوامی معاملات کے ایک ممتاز روسی ماہر نے ماسکومیں مجھے بتایاکہ سوویت روس کا پہلا محبوب امریکہ نہیں ہوسکتا۔ اس کا پہلا محبوب متحدہ یورپ ہو گا۔ اور پھر جاپان ، اس کے بعد امریکہ اور کینیڈا ۔ میں نے تعجب کے ساتھ پوچھا، اور انڈیا کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ روسی عالم نے پر اطمینان لہجہ میں کہا کہ انڈیا کا معاملہ ایک مخصوص معاملہ ہے۔ انڈیا ہمارا پہلا یا دوسر ایا تیسرا محبوب نہیں۔ انڈیا ہمارا دائمی محبوب ہے :
An outstanding Soviet specialist in international affairs told me, "The United States will not be the first love of the U.S.S.R. The first love will be united Europe. And then Japan, the U.S. and Canada". "What about India?" I asked with mixture of surprise and amusement. "India is special", the academician replied placidly. "India is not our first or second or third love. It is our love-for-ever" (p.1).
پچھلے چالیس سال سے ہماری حکومت ہم کو یقین دلا ر ہی تھی کہ سوویت روس ہمارا سب سے بڑا دوست ہے۔ مگر روسی عالم کا مذکورہ جواب بتاتا ہے کہ اب سوویت روس نے انڈیا کو رسمی تعلق کے خانہ میں ڈال دیا ہے۔ اس فرق کی وجہ بالکل سادہ ہے۔ پہلے روس کو ہماری ضرورت تھی ، اب روس کو ہماری ضرورت نہیں رہی۔ سرد جنگ کی سیاست میں روس ہم کو امریکہ کا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا۔ اب روس اور امریکہ میں صلح ہو جانے کے بعد یہ حریفانہ سیاست مرگئی ، اس لیے روس کی نظر میں ہماری اہمیت بھی ختم ہو گئی۔ اب روس کے لیے اہمیت صرف ان ملکوں کی ہے جو جدید اقتصادی تنظیم میں اس کے مددگار بن سکیں۔ اور یہاں یورپ اور جاپان اس کے لیے مددگار ہیں نہ کہ انڈیا۔
کسی فرد یا قوم کی اہمیت کا راز یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں کی ضرورت بنا دے۔ اس کے سوا دوسری ہر بنیاد فرضی ہے جو ہوا کے پہلے ہی جھونکے میں زمین بوس ہو جاتی ہے۔
ہندستان ٹائمس (۲۸ دسمبر ۱۹۹۰) نے ایک ہندستانی صحافی مقیم واشنگٹن مسٹر این سی منن کی رپورٹ چھاپی ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ عام طور پر لوگوں کو یہ بات معلوم نہیں ہے کہ جب روسی صدر میخائل گوربا چیف نے راجیو گاندھی کی حکومت کے زمانہ میں انڈیا کا دورہ کیا۔ اس وقت سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی نے انڈیا، چین اور سوویت یونین کے درمیان قریبی تعاون کی تجویز پیش کی تھی تاکہ امریکی دیو( اور شاید یورپ کے ابھرتے ہوئے اتحاد) کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک دوستانہ دھڑا قائم کیا جا سکے ۔ صدر گوربا چیف نے بے رحمانہ صاف گوئی کے ساتھ اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہمیں سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے، وہ نئی ٹکنالوجی ہے، اور نئی ٹکنالوجی ہم کو نہ چین دے سکتا ہے اور نہ انڈیا :
It is not generally known that when Soviet President Mikhail Gorbachev visited India, then Prime Minister Rajiv Gandhi had suggested closer cooperation among India, China and the Soviet Union as a friendly counterpoise to the US giant (and perhaps to the emerging European conglomerate). President Gorbachev responded with brutal frankness that what we need desperately is new technology, and neither China nor India can give us that (p.13).
پچھلے چالیس سال سے روس نے ’’سرمایہ دار مغرب‘‘کو اپنا دشمن سمجھ رکھاتھا۔ اور ’’سوشلسٹ انڈیا‘‘کو اپنا دوست بنائے ہوئے تھا۔ مگر لمبے تجربے کے بعد اس کو معلوم ہوا کہ انڈیا سے اس کو کوئی فائدہ نہیں، جب کہ سرمایہ دار مغرب اس کی ترقی میں نہایت اہم مدد گار بن سکتا ہے۔ اس نے انڈیا کو چھوڑ دیا اور اختلاف اور شکایت کو نظر اندازکرتے ہوئے سرمایہ دار مغرب سے دوستی قائم کر لی ۔
“سرمایہ دار ملک ”نے اپنی نفع بخشی کی صلاحیت کے ذریعہ اپنے سب سے بڑے دشمن کو جیت لیا۔ اور سوشلسٹ انڈیاکی غیر نفع بخشی کانتیجہ یہ ہو کہ اس کو اپنے سب سے بڑے دوست سے محروم ہو جانا پڑا۔ یہی موجودہ دنیا میں کامیابی کا اصل راز ہے۔ اس دنیا میں کامیابی نفع بخشی کی بنیاد پڑتی ہے نہ کہ الفاظ کا گنبد کھڑا کرنے سے ۔