خبر نامہ اسلامی مرکز ۷۱
۱۔ ہندی میں الرسالہ کے اجراء کو بہت پسند کیا گیا ہے۔ چند خط نقل کیے جاتے ہیں :
• ہندی الرسالہ کی کاپی بیگم شروانی صاحبہ کومل گئی ہے ۔ وہ ہندی الرسالہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ہم صحیح معنوں میں عوام کی خدمت کر سکیں گے اور اپنا پیغام لوگوں تک پہنچا سکیں گے (انصار الحق سکریٹری ، الٰہ آباد )
• مشہور انگریزی جرنلسٹ مسٹر خوشونت سنگھ ایک خط میں لکھتے ہیں :
You have done well to bring out this Risala in Devnagari. It should have a much wider impact. (Khushwant Singh)
• خدا خدا کر کے ہندی الرسالہ منظر عام پر آ گیا۔ بہت خوشی کی بات ہے ۔ تعمیری کام میں یہ پرچہ بہت اہم رول انجام دے گا۔ اس پر چہ کو نکالنے میں جہاں آپ حضرات کی محنت شاقہ موجود ہے، وہیں اللہ تعالیٰ کی کوئی مصلحت خاص ضرور پوشیدہ ہے۔ میرا تو یہی احساس ہے ( شیخ محی الدین ، پونہ)
• ہم لوگوں کو انتہائی خوشی ہوئی جب کہ ہم نے الرسالہ ہندی کو پایا۔ خاص کر میں نے اس الرسالہ کو چوما۔ دل سے مولانا کے لیے بہت ہی دعا نکلی ۔ اللہ تعالیٰ ان کے مقصد میں کامیابی دے (جمال الدین صدیقی ، نانڈیر)
• ہندی الرسالہ کا نمونہ دیکھا۔ دیکھ کر بے حد مسرت حاصل ہوئی۔ اب تک الرسالہ اردو صرف اکیلا پڑھا کرتا تھا۔ ہندی الرسالہ جاری ہونے سے میرے بچے اور دیگر احباب بھی اس سے فیض یاب ہوں گے (محمد یوسف چھاونی والا، پالی)
• الرسالہ ہندی شائع ہونے کی خبر نئی دنیا میں پڑھی ۔ دل کو خوشی ہوئی۔ کیوں کہ اس کی سخت ضرورت تھی۔ آپ نے الحمد للہ بہت سے لوگوں کی ضرورت پوری کر دی ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ ان شاء اللہ یہ رسالہ قوم کی ترقی اور تعمیری انداز میں اصلاح کرنے میں معین و مددگار ہوگا (خلیل احمد ، مظفر نگر)
۲۔ڈاکٹر تھیوڈور رائٹ (Prof. Theodore P.Wright) نیو یارک اسٹیٹ یونیورسٹی میں پولی ٹیکل سائنس کے پروفیسر ہیں۔ وہ ۲۴ جنوری ۱۹۹۱ کو اسلامی مرکز میں آئے ۔ اور"ہندستانی مسلمانوں کے مسائل" کے موضوع پر صدر اسلامی مرکز سے تفصیلی تبادلہ ٔخیال کیا۔ آخر میں انھیں انگریزی کے متعلقہ مضامین دیے گئے۔
۳۔ایک صاحب لکھتے ہیں : الرسالہ جنوری ۱۹۹۱ میں نے حضرت مفتی شیخ الحدیث مولانا ریاست علی صاحب مدظلہ العالی کو پڑھ کر سنایا۔ حضرت مولانا نے جناب والا کو دور حاضر کا عظیم مبلغ اسلام فرمایا ۔ میں خود فلسفہ کے اسکالر ہونے کی حیثیت سے آپ کو وقت کا ایک عظیم فلسفی سمجھتا ہوں (محمد شفیع ، پرگتی میدان ، نئی دہلی)
۴۔نئی دہلی کے انگریزی اخبار ہندوستان ٹائمس نے اپنے شمارہ ۶ جنوری ۱۹۹۱ میں صدر اسلامی مرکز کا ایک مفصل آرٹیکل شائع کیا ہے۔ یہ آرٹیکل بابری مسجد - رام جنم بھومی کے مسئلہ پر ہے ، اس آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ اس نزاع کو ثالثی کے اصول پر حل کرنا چاہیے ۔
نئی دہلی میں ۲۰ دسمبر ۱۹۹۰ کو ایک مشترک اجتماع ہوا ۔ صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور تقریباً آدھ گھنٹہ کی ایک تقریر کی۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھاکہ اسلام ہی وہ نظام فکر ہے جوسائنس کے نظریاتی سوالات کو حل کرتا ہے اور اسی کے ساتھ وہ محفوظ دین ہونے کی وجہ سے انسان کی روحانی و مذہبی تلاش کا واحد جواب ہے۔
۵۔الرسالہ کے مضامین اپنی عمومی افادیت کی بنا پر برابر ملک کے مختلف پرچوں میں نقل کیے جارہے ہیں۔ مثلاً الرسالہ انگریزی کا ایک مضمون نئی دہلی کے انگریزی جرنل پر افٹیبلی یوریس (Profitably Yours) کے شمارہ جولائی –– دسمبر ۱۹۹۰ میں نقل کیا گیا ہے ۔
۶۔مسٹر دیوی سرن (بھوپال) لکھتے ہیں : الرسالہ ہر ماہ مل جاتا ہے۔ آپ جس طرح بات کو ذہن نشیں کراتے ہیں وہ صرف آپ کا ہی حصہ ہے۔ میں آپ کے طرز تحریر کا اور نفس مضمون کی افادیت کا بےحد قائل ہوں ۔ اردو کے علاوہ ہندی اور انگریزی بھی جانتا ہوں ، اس لیے مجھے تینوں زبانوں کا استفادہ حاصل ہے ۔ ہندی کا الرسالہ بھی خوب ہے۔ اس سے ہندی داں طبقہ کو فائدہ ہوگا۔ اس کا یقین ہے۔
۷۔آل انڈیا ریڈیونئی دہلی سے ۲۲ مارچ ۱۹۹۱ کو صدر اسلامی مرکز کی ایک تقریر نشر کی گئی۔ تقریر کا عنوان تھا : مذہب میں ایجاب و قبول کی روایات۔ ان شاء اللہ آئندہ الرسالہ میں یہ تقریر شائع کردی جائے گی۔
۸۔احادیثِ رسول کا ایک مجموعہ تیارکیا گیا ہے۔ اس میں دو سو منتخب حدیثیں ہیں۔ کتابت کی تکمیل کے بعد ان شاء اللہ اس کو شائع کیا جائے گا۔
۹۔نئی دہلی میں ایک اسکول فادر ایگنل اسکول کے نام سے ہے۔ ۲۱ جنوری ۱۹۹۱ کو انھوں نے اپنے یہاں ایک انٹرریلیجس اجتماع کیا۔ اس کا عنوان تھا: Living together in peace.اس موقع پر اسلامی مرکز کو دعوت دی گئی۔ مرکز کی طرف سے ڈاکٹر ثانی اثنین خاں نے شرکت کی اور مذکورہ موضوع پر اسلامی نقطۂ نظر سے ایک تقریر کی۔
۱۰۔الرسالہ اب بیک وقت تین زبانوں (اردو، ہندی ، انگریزی )میں نکل رہا ہے۔ اس سے اسلامی مرکز کے تعمیری اور دعوتی مشن کا اشاعتی حلقہ بہت بڑھ گیا ہے ۔ مگر اسی کے ساتھ مرکز کے اقتصادی مسائل میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ ہم اصحاب خیر اور درد مند حضرات سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنا مالی تعاون روانہ فرمائیں ، تاکہ اس دینی مشن کو مؤثر طور پر جاری رکھا جاسکے۔
۱۱۔کچھ عرصہ پہلے بعض مخیر حضرات کے تعاون سے مرکز کی طرف سے تقسیم کتب کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ اس سلسلہ میں ہم نے دینی مدارس اور اردو لائبریریوں سے گزارش کی تھی کہ وہ ہمیں اپنے پتے اور تعارف نامے روانہ کریں تا کہ انھیں کتابیں بھیجی جائیں۔ دوسری طرف اصحاب خیر سے یہ اپیل کی گئی تھی کہ وہ اپنے فیاضانہ تعاون کے ذریعہ تقسیم کتب کے اس سلسلہ کو مزید وسعت دینے کی کوشش فرما ئیں ۔ اس اعلان کے بعد ہمارے پاس سینکڑوں کی تعداد میں دینی اداروں اور لائبریریوں کے پتے آگئے ہیں۔ تا ہم ہمار ے خصوصی معاونین کی تعداد اور مرکز کے وسائل محدود ہونے کی بنا پر ان سب کے لیے کتابوں کی فراہمی بر وقت ممکن نہیں۔ لہذا اہل خیر حضرات سے دوبارہ گزارش کی جاتی ہے کہ وہ اشاعت دین کی اس مہم میں ہمارے ساتھ حوصلہ مندانہ تعاون کے لیے آگے بڑھیں۔ ایک فرد کے لیے خصوصی تعاون کی کم از کم حد یہ ہے کہ وہ ایک سال کے لیے الرسالہ کا زیر تعاون مبلغ ساٹھ روپے ارسال کر دے۔ جس کے عوض ان کی طرف سے کسی مدرسہ یا لائبریری کو مفت الرسالہ جاری کر دیا جائے گا۔