داعی کا اخلاق

ایک دکاندار ہے ۔ اس کے یہاں ایک گاہک آتا ہے ۔ اس گاہک کو ۵۰ ہزار روپیہ کا مال خریدنا ہے ۔ بات چیت کے دوران گاہک کی زبان سے کوئی کڑوابول نکل جاتا ہے ۔ اس پر دکاندار کو غصہ آجاتا ہے ۔ وہ بھی جواب میں کڑوی بات بول دیتا ہے ۔ گاہک بگڑ جاتا ہے ۔ وہ وہاں سے اٹھ کر چلا جاتا ہے ، اور دوسری دکان سے خریداری کا معاملہ کرتا ہے ۔

 اب یہ دکاندار اگر واقعی دکاندار ہے تو وہ اپنے آپ کو ملامت کرے گا ۔ وہ سوچے گا کہ میں کیوں غصہ ہو گیا۔ مجھے چاہیے تھا کہ میں اس کی بات کو برداشت کر لیتا۔ اس کے کڑوے بول کو نظر انداز کرتے ہوئے اس سے میٹھا بول بولتا ۔ اگر میں ایسا کرتا تو ایک قیمتی گا ہک میرے ہاتھ سےنہ نکلتا۔ خواہ مخواہ میں نے آئے ہوئے گاہک کو کھو دیا ۔

اس کے برعکس اگر دکاندار کے اندر’’دادا‘‘والا مزاج ہے تو وہ اپنے آپ کو بھول کر صرف گاہک کو برا بتائے گا۔ وہ کہے گا کہ یہ شخص خریداری کرنے آیا تھا یا میرے اوپر ڈکٹیٹری کرنے آیا تھا۔ میں کیوں کسی سے دبوں ، کیا میں کسی کا غلام ہوں۔ مجھے ایسے گاہکوں کی کوئی پروا نہیں۔ ان کو آنا ہے تو آئیں اور نہیں آنا ہے تو نہ آئیں  –––––  اس مثال میں پہلا دکان  دار سچا دکان  دار ہے ، اور دوسرا دکان  دار جھوٹا دکان  دار ۔

دعوت کے عمل کو قرآن میں تجارت (الصف  ۱۰) سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ تاجر ہمیشہ ذمہ داری کو خود قبول کرتا ہے ، اس کے بغیر وہ دوسروں کو اپنا گاہک نہیں بنا سکتا۔ اسی طرح خدا کا داعی ایسا کرتا ہے کہ وہ فریق ثانی کی زیادتیوں کو نظر انداز کر کے یک طرفہ طور پر اس کے ساتھ حسن اخلاق کا معاملہ کرتا ہے، کیوں کہ اس کے بغیر وہ دوسروں کو اپنا مدعو نہیں بنا سکتا۔

 ایک تاجر اپنی دنیا کے فائدہ کے لیے جو کچھ کرتا ہے ، وہی ایک داعی اپنی آخرت کےفائدہ کے لیے کرتا ہے ۔ اس اعلیٰ کردار کے بغیر نہ کوئی تاجر تاجر بن سکتا ، اور نہ کوئی داعی داعی ۔

 تاجرانہ کردار کے بغیر تجارت نہیں، اسی طرح داعیانہ کردار کے بغیر دعوت نہیں ۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom