سفر نامہ روس – ۳

مسٹر گولب ییف نے کہا کہ اب میں آپ کو اپنے گھر لے چلتا ہوں تا کہ آپ دیکھیں کہ ایک روسی کا گھرکیسا ہوتا ہے اور وہ اپنے گھر کے اندر کس طرح رہتا ہے۔ اس کے بعد میں ان کے فلیٹ پر گیا ۔ یہ کافی بڑا اور سجا ہوا فلیٹ تھا۔ انھوں نے اپنے باورچی خانہ میں خود بنا کر چائے پلائی کیوں کہ اس وقت وہ گھر میں اکیلے تھے۔

 چائے خوش رنگ تھی۔ میں نے اس میں دودھ نہیں ڈالا۔ انھوں نے کہا کہ آپ چائے میں دودھ نہیں ڈال رہے ہیں تو کم از کم ایک چمچہ ہما را دو دھ چکھئے تا کہ آپ کو معلوم ہو کہ ہمارے یہاں کا دودھ کیسا ہوتا ہے۔ کھانے کی میز پر کاغذی پیکنگ میں دودھ رکھا ہو اتھا۔ اس میں سے انھوں نے ایک چمچہ دودھ نکال کر مجھ کو دیا۔ میں نے کھایا تو دودھ بالکل خالص اور لذیذ معلوم ہوا۔ یہی حال مکھن کا تھا۔

میں نے سوچا کہ ہم ہندستان میں کسی غیر ملکی سےیہی بات نہیں کہہ سکتے۔ ایک شخص جو خود گائے اور بھینس پالے ہوئے ہو وہ تو کہہ سکتا ہے۔ مگر اس کے کہنے کا کوئی اعتبار نہیں ۔ اصل یہ ہے کہ یہاں بازار سے یا ڈیری سے ایک عام شخص کو کیسا دودھ اور کیسا مکھن ملتا ہے ۔ ہندستان میں ہم نے سوشلزم اور سرمایہ داری دونوں کو جمع کیا۔ مگر یہاں دونوں کی برائیاں تو جمع ہوئیں مگر دونوں کی خوبیاں جمع نہ ہوسکیں۔

ماسکو سے روسی زبان میں ایک غیر سرکاری ویکلی اخبار لکھتا ہے۔ آرگونتے یی فائکتے(Arguments and Facts) یہ صرف سیاسی اخبار نہیں بلکہ وہ ہر قسم کے علمی اور سماجی موضوعات کو کور کر تا ہے۔ اس کی موجودہ اشاعت ۳۳ ملین سے زیادہ ہے۔ وہ سارے ملک میں پڑھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر اودیف (Gennady P. Avdeyev) نے یہ بات مجھے بتائی تو مجھے بڑا رشک آیا۔ ہندستان میں ہم فخر کے ساتھ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہماری آبادی ۲۰ کروڑ ہے ، مگر ہندستان میں مسلمانوں کا کوئی ایسا اخبار نہیں جو بڑی تعداد میں چھپتا ہوا اور سارے ملک میں تمام مسلمانوں تک پہنچے ۔ مسلمان فخر کے میدان میں سب سے آگے ہیں اور عمل کے میدان میں سب سے پیچھے۔

سوویت یونین میں بہت سی زبانیں ہیں ۔ اس کا مسئلہ انھوں نے قابل تقلید انداز میں حل کیا ہے۔ سوویت یونین پندرہ ریپبلک پر مشتمل ہے۔ اس میں سے ایک روسی ریپبلک ہے۔ روسی ریپبلک کی فرسٹ زبان روسی زبان ہے جو مرکزی حکومت کی سرکاری زبان ہے ۔ بقیہ چودہ ریپبلک میں ان کی مقامی زبان کو فرسٹ زبان کی حیثیت حاصل ہے اور روسی زبان سیکنڈ لینگویج کی حیثیت سے استعمال ہوتی ہے۔

ایک روسی تعلیم یافتہ شخص سے میں نے سوویت یونین میں مذہب کا حال پوچھا۔ اس نے کہا کہ اشتراکی انقلاب کے بعد مذہب یہاں بطور ’’عقیدہ‘‘ختم ہو گیا تھا۔ مگر ’’رسم‘‘کی سطح پر وہ ہمیشہ باقی رہا ۔ مثلاً شادی کی رسم ، موت کی رسم ۔ ان چیزوں میں مذہب پہلے بھی سوویت سوسائٹی میں باقی تھا۔ اب گو ربا چیف کے زمانہ میں مذہب کو نئی آزادی ملی تو وہ عقیدہ اور عبادت کے اعتبار سے بھی زندہ ہو رہا ہے ۔

 اس سے مذہبی رسوم کی نئی طاقت کا اندازہ ہوا۔ مذہبی رسوم مذہب کے معاملہ میں راکھ میں چنگاری کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ یہ چنگاری راکھ کے ڈھیر میں دبی رہتی ہے۔ اور جب موقع ملتا ہے تو وہ بھڑک کر شعلہ بن جاتی ہے۔

ماسکو میں قیام کے دوران میں نے ہزاروں سوویت باشندوں کو دیکھا۔ وہ مجھے خوش نظر آئے۔ میرے ہوٹل میں روزانہ بہت بڑی تعداد میں مختلف علاقوں کے طلبہ بسوں سے آتے تھے ۔ یہ لوگ تعلیمی ٹور کے تحت یہاں بھیجے جاتے ہیں۔ وہ لوگ اکثر ہنستے ہوئے نظر آتے تھے۔ ہوٹل کے ملازمین کا حال بھی یہی تھا۔ میں نے ایک انگریزی داں روسی سے پوچھا۔ اس نے بتایا یہ ایک نیا ظاہرہ ہے ۔ یہ لوگ دراصل ‘‘پریستروئیکا’’ کی وجہ سے اتنا خوش ہیں کیوں کہ اب وہ اپنے کو آزاد محسوس کرتے ہیں۔

 سوویت یونین میں دنیا کے ۱۸ ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات کے لیے   فرینڈ شپ سوسائٹیاں قائم ہیں ۔مثلاً سوویت -سری لنکا فرینڈ شپ سوسائٹی۔ اس کے سکریٹری مسٹر گالکن (Alexey V Galkin)ہیں ۔ انھوں نے چار سال لنکا میں رہ کر سنہالی زبان سیکھی اور اس میں مہارت پیدا کی۔ اسی طرح سوویت - انڈین فرینڈ شپ سوسائٹی۔ اس کے جنرل سکریٹری مسٹر گولب ییف (Isaac Golubyev) ہیں۔انھوں نے ایم اے تک اردو پڑھی۔ اس کے بعد انھوں نے تین سال پاکستان میں گزارے۔ وہ روانی کے ساتھ اردو بولتے ہیں۔ ان دونوں سے میری ملاقا تیں ہوئیں ۔ اسی طرح دوسرے تمام ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے   یہاں باضابطہ سوسائٹیاں بنی ہوئی ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ سوویت یونین ایک نظریاتی ریاست ہے۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اسلام ایک کامل اور عالمی نظریہ ہے۔ مگر کسی بھی مسلم ملک میں دوسرے ملکوں سے تعلقات کے لیے   اس قسم کی سوسائٹیاں قائم نہیں۔ حتی کہ پاکستان میں بھی نہیں جو نصف صدی سے یہ دعوی ٰکر رہا ہے کہ وہ ایک نظریاتی ملک اور نظریاتی ریاست ہے۔ اس کی وجہ غالباً  یہ ہے کہ مسلم دانشوروں کا نظریاتی دعویٰ محض اظہارِ فخر کے لیے   ہے ، وہ سنجیدہ عمل کے لیے   نہیں۔

 یکم اگست کو ماسکو کی مسجد دیکھی۔ یہاں کے موذن کا نام رئیس بلال (۲۳ سال )ہے اور امام کا نام را وی بن اسماعیل تھا۔ امام اور موذن دونوں کے سر پر گول ٹوپی تھی ۔ مگروہ کوٹ اور پتلون پہنے ہوئے تھے اور ٹائی لگائے ہوئے تھے۔ نماز کے وقت دونوں نے ایک لمبی عبااپنے اوپر ڈال لی۔ ماسکو میں یہی ایک مسجد ہے۔ مسجد وسط ماسکو میں ہے۔ بہت اچھی بنی ہوئی ہے۔ چوڑی شاہراہ کے عین کنارہ ہے۔ اس کے ساتھ ملا ہوا پارک اس کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہا ہے۔ مسجد چاروں طرف سے کھلی ہوئی تھی۔ مسجد کے اندر ٹیلیفون وغیرہ کی تمام سہولتیں موجود ہیں۔ وسیع دفتر میں میز اور کرسی کی نشست کا انتظام تھا۔ماسکو میں ایک اور مسجد ہے جو اس وقت بند ہے۔ یہاں کے مسلمان حکومت سے اس کو کھولنے کی بات چیت کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ وہ بھی جلد کھل جائے گی۔

 ماسکو میں مسلمانوں کی تعداد ۲،۰۰،۰۰۰ ہے۔ جمعہ کے دن ایک ہزار سے زیادہ آدمی اس مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرتے ہیں۔ موذن صاحب نے قرآن کا ایک نسخہ دکھایا۔ یہ متن کے بغیر روسی زبان میں قرآن کا کامل ترجمہ تھا۔ اس کے مترجم کا نام کر اچکوو سکی تھا۔ یہ ایک غیر مسلم روسی ہے۔ مگر وہ عربی زبان کااچھا عالم تھا۔ اس نے قرآن کا لفظی ترجمہ کیا ہے جس کو حکومت نے شائع کیا ہے۔

 امام صاحب کو میں نے ‘‘الإسلام یتحدیٰ’’بطور ہد یہ پیش کیا۔ وہ اچھی عربی جانتے تھے۔ ان سے گفتگو عربی زبان میں ہوئی۔ وہ کتاب پا کر بہت خوش ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ ہم اس کا ترجمہ روسی زبان اور تاتاری زبان میں کرائیں گے۔ سوویت یونین کے مسلمانوں کی بڑی تعداد تاتاری زبان بولتی ہے۔ یہاں کی مسجد میں میں نے ظہر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی۔

آج یہاں کوئی خاص دن نہیں تھا۔ مگر لوگ مسلسل امام صاحب کے‘‘ دفتر ’’میں آرہے تھے ۔ ٹیلیفون کی گھنٹی بھی بار بار بج رہی تھی۔ سب لوگ بہت‘‘نشیط ’’دکھائی دے رہے تھے۔

مسجد میں داخل ہوا تو دروازہ کے بائیں طرف دیوار سے ملی ہوئی لمبی الما ری تھی۔ اس میں جو تا  رکھنے کے لیے   بہت سے چھوٹے چھوٹے خانے بنے ہوئے تھے۔ یہ خانے اس طرح سلیقہ سے بنائے گئے تھے کہ وہ مسجد کے دوسرے خوب صورت حصوں کے ساتھ بے جوڑ نہیں معلوم ہوتے تھے۔ اس وقت تقریباً ساٹھ نمازی تھے۔ کسی نے اپنے جوتے کو اتارنے کی جگہ چھوڑ دیا، کسی نے خانہ میں رکھ دیا۔ تمام نمازیوں میں سے کوئی بھی شخص نہ تھا جو جوتے کو اتار کر ہاتھ میں لے اور اس کو سجدہ گاہ کے سامنے رکھ کر نماز ادا کرے۔

نماز سے فارغ ہو کر نکلا تو جوتا اتارنے کی جگہ پر وہ منظر دکھائی نہیں دیا جو د ہلی اور دوسرے مقامات کی مسجدوں میں اکثر نظر آتا ہے ۔ ایک یا ایک سے زیادہ آدمی حیران و پریشان کھڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان سے پوچھیے کہ آپ کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا تو وہ بتائیں گے کہ ’’یہاں جو تا اتا راتھا ، مگر وہ کہیں نظر نہیں آرہا ہے‘‘۔ ہندستان اور پاکستان والوں کو دعوی ہے کہ ان کے یہاں سب سے زیادہ اسلام پایا جاتا ہے۔ مگر غالباً ہندستان اور پاکستان ہی وہ ملک ہے جہاں کی مسجدوں میں نمازیوں کے جوتے اٹھالیے   جاتے ہیں۔

وضو خانہ مسجد کے وسیع احاطہ میں باہر کی طرف تھا۔ اس کو ’’ماڈرن‘‘وضو خانہ کہا جا سکتا ہے۔ اس میں خاص انداز کے مقام ِوضو کے علاوہ صابن، تولیہ ، واش بیسن اور کموڈ وغیرہ کا انتظام تھا۔ میرے قریب ایک صاحب بنچ پر بیٹھے ہوئے وضو کر رہے تھے ۔ وہ کوٹ پتلون اور ٹائی میں تھے ۔ مگر وہ عربی یا انگریزی نہیں جانتے تھے۔ انھوں نے نہایت پر مسرت لہجہ میں ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا’’حج ... جدہ ... مکہ‘‘پھر چارانگلیوں سے اشارہ کیا۔ اس کا مطلب غالباً یہ تھا کہ میں نے اور میرے خاندان کے چار آدمیوں نے حج کیا ہے۔

آج یہاں دو جنازےبھی تھے۔ نماز ظہر سے پہلے جنازہ کی نماز پڑھی گئی۔ دونوں نمازوں سے پہلے اور بعد کو امام صاحب نے ذکر و دعا کے کلمات کہے۔ ظہر کی نماز میں کافی آدمی تھے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو۔ کہ آج جنازہ کی وجہ سے بہت سے مرد اور عورتیں یہاں آئی ہوئی تھیں ۔ یہاں جو عور تیں نظر آئیں وہ سب اسکرٹ پہنی ہوئی تھیں ، یہاں مسلم اور غیر مسلم عورتوں کا لباس اتنا ملتا جلتا ہے کہ باہر دیکھ کر بظاہر یہ سمجھا نہیں جاسکتا کہ کون مسلم خاتون ہیں اور کون غیر مسلم خاتون۔

امام اور موذن دونوں کوٹ اور پتلون اور ٹائی پہنے ہوئے تھے۔ مگر نماز کے وقت دونوں نے اوپر سے ایک خاص طرح کی لمبی عبا پہن لی ۔ اور سر پر خاص طرح کی پگڑی رکھ لی۔ نمازیوں میں زیادہ تر بوڑھی عمر کے نظر آئے۔ دو صفیں بھری ہوئی تھیں۔ کل تقریباً ۶۰ نمازی تھے۔ مسجد کا نیچے کا حصہ خواتین کے لیے   مخصوص ہے۔ گراؤنڈ فلور وسیع ہال کی صورت میں ہے۔ مسجد کے پورے حصہ میں قالین بچھا ہوا ہے۔ سنٹرل ہیٹنگ کا انتظام ہے۔ وغیرہ۔ اوپر کا حصہ بھی نہایت عمدہ اور خوب صورت ہے۔ نماز کے بعد امام صاحب نے میرا تعارف روسی زبان میں کر ایا۔ چنانچہ تمام نمازیوں نے آکر مجھ سے مصافحہ کیا اور دعائیں دیں۔

 مسجد کے باہر تعمیرات ہورہی تھیں اور تعمیری مشینیں کھڑی ہوئی تھیں۔ میں نے سمجھا کہ یہ مسجد سے با ہر کوئی چیز بن رہی ہے۔ مگر معلوم ہوا کہ وہ مسجد کا حصہ ہے اور مسجد کے تحت بن رہا ہے۔ یہ جان کر بہت خوشی ہوئی۔ کیوں کہ وہ کافی بڑا تھا اور تعمیر کے بعد اس میں ایک بڑا مدرسہ قائم کیا جاسکتا تھا۔

 ماسکو کی جامع مسجد کے امام اور خطیب کا نام راوی بن اسماعیل عین الدین تھا۔ وہ ابھی جوانی کی عمرمیں تھے۔ مسجد سے ملا ہوا امام صاحب کا کمرہ جدید طرز کے دفتر کی مانند تھا۔ وہ کافی بڑا تھا نشست میز کرسی پر تھی ، ان سے میں نے پتہ لکھنے کو کہا تو انھوں نے دو ٹیلیفون نمبر کے ساتھ اپنا یہ پتہ لکھا :

Ravil Gainoutdin, Imam Jama Masjid, Moscow, USSR

Tel: 281-49-04, 281-38-66.

  سوویت روس کے موجودہ صدر میخائیل گوربا چوف نے دو ایسے کام کیے ہیں جوکسی بھی موجودہ مسلم ملک میں ناقابل تصور ہیں۔ ایک ، ساکھ کے سوال کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے افغانستان سے روسی فوجیں واپس بلانا۔ دوسرے خود اپنےملک کے نظام میں وہ تبدیلی لانا جس کو ایک دانشور نے انقلاب کو توڑنے (dismantling a revolution) سے تعبیر کیا ہے۔

 تاریخ بتاتی ہے کہ روسی قوم ایک بے حد جاندار قوم ہے۔ روس کے پاس، امریکہ کے بعد دوسرا سب سے بہتر جغرافیہ ہے۔ مگر پہلی عالمی جنگ کے بعد روسی قوم مسلسل زوال کا شکار ہوتی رہی۔ اسلحہ سازی کے سوا وہ کسی بھی دوسرے میدان میں ترقی نہ کر سکی۔

 اس کی دو بڑی وجہیں تھیں۔ ایک مارکسی نظریہ کے تحت، عالمی قیادت کا جنون۔ دوسرےریاستی اقتصادیات (state economy) کا طریقہ اختیار کرنے کی وجہ سے روسی معیشت میں محرک عمل کا ختم ہو جانا۔ گوربا چوف اگر اپنی کوششوں میں کامیاب ہوتے ہیں ، تو وہ روسی قوم سے ان دونوں کمزوریوں کو دور کر دیں گے۔ اس کے بعد یہ ممکن ہو جائے گا کہ روسی قوم کی امکانی صلاحیت ظاہر ہونا شروع ہو جائے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد پیدا ہونے والے حالات نے روس کو دوسرے سپر پاور کی حیثیت دے دی تھی۔ لیکن گوربا چوف کی قیادت میں روس نے امریکہ سے مفاہمت کا جو سلسلہ شروع کیا ہے ، اگر وہ کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہا تو تقریباً یقینی ہے کہ مستقبل قریب میں روس اپنی سپر پاور کی حیثیت کھو دے گا۔ روس کو سپر پاور کی حیثیت ہتھیار کی سطح پر حاصل تھی۔ موجودہ معاہدوں کے تحت جب ہتھیار کو غیر موثر بنا دیا جائے گا تو اس کے بعد اصل فیصلہ کن چیز اقتصادی طاقت بن جائے گی۔ اور غیر حربی اقتصادی میدان میں روس، امریکہ اور جاپان سے بہت پیچھے ہے۔ تاہم اس تاریک حال میں اس کے لیے   ایک روشن مستقبل کا امکان چھپا ہوا ہے۔

ماسکو کی ایک بے حد چوڑی سڑک تھی۔ دونوں طرف درختوں کی قطاریں دور تک چلی گئی تھیں۔ موسم نہایت خوش گوار تھا۔ ہماری گاڑی اس پر تیزی سے دوڑ رہی تھی ۔ یہ ایک خصوصی آرام دہ گاڑی تھی۔ سیٹ کے آگے اتنی زیادہ خالی جگہ تھی کہ آدمی پور ا پاؤں نہایت آسانی کے ساتھ پھیلا سکتا تھا۔ میں خاموشی سے سر پکڑے ہوئے اس کے اندر بیٹھا ہوا تھا۔

میرے ساتھی نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا : یہ گاڑ ی جس میں آپ سفر کر رہے ہیں وہ یہاں بے حد اہم شخصیتوں (VVIPs) کے لیے   ہوتی ہے۔ اس وقت ہم لوگ ایک روسی وزیر سے ملنے کے لیے   جا رہے تھے۔ میں نے ساتھی کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا : میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ آپ مجھے بہت جلد ماسکو سے دہلی واپس بھیج دیجئے۔

سفر میرے لیے   ہمیشہ مصیبت کا باعث ہوتا ہے ۔ سفر میں معمولات کا ٹوٹنا میرے لیے   اتنا سخت ثابت ہوتا ہے کہ آرام بھی مجھ کو کاٹنے لگتا ہے۔ اور اب بڑھاپے کی عمرکو پہنچنے کے بعد تو یہ کیفیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ حتی کہ اب میں یہ سوچنے لگا ہوں کہ میں اسفار کا سلسلہ بالکل بند کر دوں۔ حالاں کہ ان سطور کے لکھنے کے وقت بھی میرے پاس کئی مقامات کے دعوت نامے موجودہیں ––––––  امریکہ ، جاپان ، جرمنی ، انگلینڈ ، اٹلی ، پاکستان ، لیبیا ، وغیرہ روسی میز بانوں کے سخت اصرار کے باوجود میں نے اپنا سفر مختصر کر دیا اور درمیان سے واپسی کا فیصلہ کیا۔ بالآخر وہ لوگ بھی راضی ہو گئے۔ اب مجھے ۳۱ جولائی کو ہوٹل چھوڑ نا تھا۔ صبح کو فجر کی نماز پڑھی۔ نماز کے بعد ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ دعا کے لیے   ہاتھ اٹھایا۔ میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہو گئے : یا اللہ مجھے بخش دیجئے۔ آپ کے اس عاجز بندہ کو غیر جہنم بھی برداشت نہیں، پھر جہنم اس سے کیوں کر بر داشت ہوگی۔ ایک ایسا انسان جو راحت کا بھی تحمل نہیں کر سکتا ، وہ عذاب کا تحمل کس طرح کرے گا۔

 یکم اگست ۱۹۹۰ کو میں ماسکو ایر پورٹ پر جہاز کے انتظارمیں بیٹھا تھا۔ مختلف سرگرمیوں کے مناظر آنکھوں کے سامنے تھے۔ مختلف ملکوں کے عورت اور مرد آتے جاتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ اس دوران ایک لطیف تجربہ گزرا۔ دل کے احساس کو رقم کرنے کے لیے   آنکھوں نے روشنائی فراہم کی۔ ایک ربانی ارتعاش اندر سے نکل کر فضا میں مرتسم ہو گیا۔

میں نے اپنے بیگ سے قلم اور کاغذ نکالا۔ میں نے چاہا کہ اس ربانی تجربہ کو انسانی الفاظ میں لکھوں۔ مگر پھر میں نے لکھنے کا خیال چھوڑ دیا۔ میں نے سوچا کہ لوگوں کا حال یہ ہے کہ کثیف حقیقتوں کو سمجھنا بھی ان کے لیے   مشکل ہو رہا ہے۔ پھر لطیف حقیقتوں کو آخر کون سمجھے گا۔ یہ تو وہ حقیقتیں ہیں جو صرف آنسووں سے لکھی جاتی ہیں اور دل کی دھڑکنوں سے پڑھی جاتی ہیں۔ مگر آج انسان کی سطحیت کا یہ عالم ہے کہ اس کے پاس نہ آنکھ کے آنسو ہیں اور نہ دل کی دھڑکنیں ۔ پھر کون ہے جو اس کو پڑھے اور کون ہے جس کے لیے   اسے لکھا جائے ۔

جہاز سازی کی صنعت کو ترقی دینے میں روس کا خاص حصہ ر ہا ہے۔ مثلاً روس نے پہلی بار کئی انجن والے جہاز (multi-engined plane) بنائے ۔ اس کا ڈیزائن سکو رسکی (Sikorsky) نے تیار کیا تھا، اور وہ پہلی بار ۱۹۱۵ میں کامیابی کے ساتھ اڑایا گیا تھا۔ روسی قوم کے اندر غیر معمولی امکانی صلاحیت ہے۔ کمیونزم کے جابرانہ نظام نے اس صلاحیت کے ظہور پر روک لگا دی تھی۔ اب امید ہے کہ روسی قوم دوبارہ ترقی کے نئے زینے طے کر سکے گی۔

یکم اگست ۱۹۹۰ کی شام کو ایر وفلاٹ کی پرواز نمبر ۵۵۷ کے ذریعہ ماسکو سے دہلی کےلیے   روانگی ہوئی۔

راستہ میں جہاز ایک گھنٹہ کے لیے   تاشقند میں رکا۔ دوسرے مسافروں کے ساتھ میں بھی جہاز سے باہر آ گیا اور یہ وقت تاشقند ایر پورٹ پر گزارا ۔ ایر پورٹ پر تاشقند کے قدیم آثار کی بہت سی بڑی بڑی تصویریں لگی ہوئی تھیں ۔ یہ اپنے طرز تعمیر کے اعتبار سے اسلامی عہد کی معلوم ہوئیں، ایک گنبد کی تصویر تھی۔ اس پر نقش و نگار کے انداز میں کچھ عر بی کلمات لکھے ہوئے تھے۔ مگر آر ٹسٹک خط کو پڑھنے کے معاملہ میں میں بہت کمزور ہوں ۔ چنانچہ میں ان کلمات کو پڑھ نہ سکا۔

تاشقند کی زمین ماضی کے ان ایام کو یاد دلاتی ہے جب یہاں مسلمانوں کا دور دورہ تھا۔ تاشقند سوویت یونین کے اس علاقہ میں واقع ہے جس کو سنٹرل ایشیا( وسط ایشیا) کہا جاتا ہے۔

 سنڈے ٹائمس (لندن ) نے اپنے شمارہ ۱۰جون ۱۹۹۰ میں لکھا تھا کہ سو ویت سنٹرل ایشیا کے جنوبی کنارہ پر واقع تمام مسلم علاقے آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ لوگ سوویت یونین کی کل آبادی کا ۲۰ فی صد حصہ ہیں (خود اس علاقے میں مسلمانوں کی تعداد ۴۰ فی صد ہے) سوویت فوج میں ان کی تعداد ۳۳ فی صد ہے۔ نیشنلزم اور مذہبی بنیاد پرستی کی ایک لہر مسلمانوں کو آزادی کی طرف لے جا رہی ہے۔ وہ کسی نہ کسی دن سوویت اقتدار سے آزادی حاصل کر لیں گے اور بقیہ مسلم دنیا کے ساتھ مل جائیں گے۔

سوویت یونین میں مسلمان زیادہ تر سنٹرل ایشیا کے علاقہ میں رہتے ہیں ازبکستان ، تاجکستان، ترکمانستان، کرغیزیہ، قزاقستان۔ سوویت یونین کے مسلمان زیادہ تر سنی ہیں ۔ البتہ آذر بائیجان میں شیعہ کی اکثریت ہے جو کہ ایر ان سے ملا ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پورے ملک میں ۱۲۰۰ مسجدیں ہیں ۔ تاہم یہ اعداد صحیح معلوم نہیں ہوتے۔ بخارا میں الغ بیگ کا مدرسہ ہے۔ یہ مدرسہ ۱۸ - ۱۴۱۷ میں بنایا گیا تھا۔ وہ وسط ایشیا کا قدیم ترین مدرسہ سمجھا جاتا ہے۔

حکومت سے منظور شدہ بہت سے مسلمانوں کے بورڈ ہیں جو مسلم معاملات کی تنظیم کرتے ہیں۔ مثلاً ایک مسلم بورڈ نے ۱۹۸۹ میں قرآن کے ۵۰ ہزار نسخے چھپوائے۔ اسی طرح ایک بورڈ ایک ماہانہ میگزین ( مسلمس آف دی سوویت ایسٹ) شائع کرتا ہے۔ یہ انگلش ، فرنچ ، عربی ، دری ، فارسی میں پچاس ہزار کی تعداد میں چھپتا ہے اور ۸۰ ملکوں میں بھیجا جاتا ہے۔ اب روس اور سعودی عرب میں سفارتی تعلقات بھی قائم ہو گئے ہیں۔

اسی علاقہ میں سمرقند واقع ہے۔ یہاں کے ایک گاؤں خر تنگ میں امام بخاری کی قبر تھی۔ یہاں ۱۹۱۷ کے انقلاب کے بعد مسلمانوں کی کوششوں سے دوبارہ نئی تعمیر کی گئی ہے۔ اور اب یہاں ایک باقاعدہ مقبرہ ہے اور اسی کے ساتھ ایک مسجد بنی ہوئی ہے۔ زائرین کثیر تعداد میں یہاں آتے ہیں ۔ (اس صفحہ کے نیچے امام بخاری کے مقبرہ کی موجودہ تصویر دی جا رہی ہے)

سوویت یونین کی پندرہ ریاستوں میں سے ایک وہ ہے جس کا نام (Tadzhikistan) ( تاجکستان) ہے ۔ اس کی راجدھانی دوشنبے (Dushanbe) ہے ۔ یہاں مسلمانوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ انھیں آزاد کیا جائے اور تاجکستان کا سرکاری مذہب اسلام قرار دیا جائے۔

نیو یارک کے ہفت روزہ نیوز ویک نے اپنے نمائندہ ڈیوڈ ریکمین کی ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دو شنبے میں کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کےدفتر کے سامنے دس ہزار مسلمانوں نے جمع ہو کر احتجاج کیا۔ مظاہرہ کے دوران اچانک ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ مظاہرین میں سے کچھ مسلم نوجوانوں نے ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے پاس کھڑے ہوئے روسی فوجیوں سے کہا کہ آپ لوگ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جائیں۔

 روسی فوجی اس ’’حکم‘‘پر حیران ہوئے ۔ تاہم کچھ دیر کے بعد وہ سڑک پر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد ڈاڑھی رکھے ہوئے ایک بزرگ مسلمان نکلے۔ انھوں نے ایک فوجی گاڑی کے اوپر کھڑے ہو کر اذان دی۔ اس کے بعد تمام مظاہرین صف باندھ کر کھڑے ہو گئے اور باجماعت نماز اداکی ۔ روسی فوج کے لوگ انھیں اچنبھے کے ساتھ دیکھتے رہے۔

نیوز ویک کے رپورٹر کے مطابق ، تاجکستان میں مسلمانوں کی تعداد روس کی دوسری ریاستوں میں بسنے والے مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ وہ سب سے زیادہ مذہبی بھی ہیں۔ پچھلے کمیونسٹ دور میں ان کے مذہبی جذبہ کو دبانے کی کوشش کی گئی۔ حتی کہ ظاہری طور پر دیکھنے والوں کے لیے   وہ ختم بھی ہوگیا۔ لیکن موجودہ روسی حکمران مسٹر گوربا چوف کی اصلاحات کے بعد اچانک یہاں اسلام دو بارہ ظاہر ہوگیا ہے۔ روس میں پانچ کروڑ مسلمان ہیں۔ چوں کہ سرکاری طور پر اس قسم کی معلومات چھاپی نہیں جاتی تھیں، اس لیے   خود روسیوں کو اس واقعہ کا علم پہلی بار ہوا ہے۔

تاجکستان میں تقریباً ۳۰۰ نئی مسجدیں بن گئی ہیں۔ فیکٹریوں ، سڑکوں اور جیل وغیرہ میں نماز پڑھنے کی اجازت مل گئی ہے۔ اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ جو اسلام پسند مسلم ملکوں میں حکمرانوں کے خلاف مہم چلارہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان‘‘سیکولر ’’حکمرانوں کو ہٹانا ضروری ہے ۔ ورنہ یہاں سے اسلام کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ایسے لوگوں کو روس کے واقعہ سے سبق لینا چاہیے   ۔ جب کمیونسٹ حکومت کے شدید ترین سلوک کے باوجود اسلام روس میں ختم نہ ہو سکا تو وہ مصر، پاکستان ،شام، اردن جیسے ملکوں سے کیوں کر ختم ہو جائے گا۔

حال ہی میں میں افریقہ (سینیگال) گیا تھا ، اس کے بعد روس کا سفر ہوا۔ دونوں کے درمیان ایک عجیب فرق تھا۔ افریقہ میں سب کے سب لوگ سیاہ فام دکھائی دیتے تھے، یہاں سب کے سب لوگ سفید فام نظر آتے ہیں۔

یہ فرق اللہ تعالیٰ نے ‘‘تعارف’’ کے لیے   رکھا ہے نہ کہ ’’امتیاز‘‘کے لیے  ۔ یہ صورت حال دراصل ا نسان کے حالتِ امتحان میں ہونے کا ایک جزء ہے ۔ مگر عجیب بات ہے کہ بیشتر انسان اس امتحان  میں نا کام ہو گئے۔ سفید فام لوگوں نے رنگ کی بنا پر اپنے کو مخصوص نسل سمجھ لیا۔ اس کے جواب میں سیاہ فام نسل میں رد عمل پیدا ہوا۔ انھوں نے کہا کہ سیاہ بہتر ہے (Black is good) حتی کہ انھوں نے کہا کہ خدا بھی سیاہ ہے ۔ نعوذ باللہ من ذالک۔

 ماسکو میں بہت بڑے بڑے پارک ہیں۔ مثلا فرینڈ شپ پارک اتنا بڑا ہے کہ ایک منظم جنگل معلوم ہوتا ہے۔ اس کے اندر رابندر ناتھ ٹیگور کا اسٹیچو ہے۔ اس کے علاوہ ماسکو میں گاندھی نہرو، اور اندرا گاندھی کے اسٹیچو بھی ہیں ۔ یہ ایک علامت ہے جس سے ہند اور روس کے درمیان گہرے تعلقات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

 ۲ اگست ۱۹۹۰ کی صبح کو دوبارہ میں دہلی کے اسی ایر پورٹ پر اتر گیا جہاں سے میں اس سفر پر روانہ ہو ا تھا۔ انسان جہاں سے آیا ہے ، وہیں اس کو دوبارہ لوٹ کر جانا ہے۔ دنیا کے سفر میں ہر روز انسان کو اس حقیقت کا تجربہ کرایا جا رہا ہے۔ مگر مسافروں کی بھیڑ میں شاید کوئی بھی مسافر ایسا نہیں جو اس ابتدائی تجربہ میں اس کے انتہائی سبق کو پارہا ہو۔ ہر آدمی واقعہ کے ‘‘نصف اول’’ کا ماہربنا ہوا ہے ، واقعہ کے ‘‘نصف ثانی ’’ کی خبر کسی کو نہیں ۔

 واپس آتے ہوئے اخبار میں ایک رپورٹ پڑھی ۔ اس کا عنوان تھا –––––  ایک نیا سوویت روس ابھر رہا ہے :

A new USSR is emerging

  اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ خمسینات میں سوویت یونین نے ساری دنیا کو حیرانی میں ڈال دیا جب کہ اس نے اپنا اسپٹنک زمین کے مدار میں داخل کر دیا۔ اس طرح اس نے فوجی طاقت میں امریکہ کی برابری (strategic parity) حاصل کرلی۔ روایتی ہتھیاروں کے اوپر اس کو واضح برتری حاصل ہوگئی۔ مگر یہ حیثیت اس کو ایک بے حد مہنگی قیمت پر ملی۔ فوجی برتری حاصل کرنے کی کوشش میں اس نے اپنی اقتصادیات کو برباد کر لیا۔ چنانچہ سوویت یونین اب ۷۰ سالہ اشتراکی لبادہ کو اتار رہا ہے اور عام جمہوری انداز پر اپنی اقتصادیات کی نئی تنظیم کرنا چاہتا ہے۔

اگر آپ ایک ملین ڈالر خرچ کر کے بید کی ایک چھڑی حاصل کریں تو یہ پانا نہیں ہو گا۔وہ کھونے کی بدترین شکل ہوگی۔ کوئی بڑا اقدام صرف اس وقت بڑا ہے جب کہ وہ نتیجہ خیز بھی ہو۔جو اقدام بظا ہر بڑا ہو مگر نتیجہ کے اعتبار سے وہ چھوٹا ہو ، وہ اقدام نہیں بلکہ خودکشی کی چھلانگ ہے۔ اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔

روس نے ایک غلط اقدام کیا مگر ۷۰سال بعد وہ غلطی کا اعتراف کر کے اس سے لوٹ آیا۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی قیادت  ۱۷۰ سال سے ایک کے بعد ایک غلط اقدام کر رہی ہے ،مگر اب تک اسے غلطی کے اعتراف کی توفیق نہ ہو سکی۔ کیسے عجیب ہوں گے وہ اصحاب ایمان جو اصحاب الحاد سے بھی کم اعتراف کا حوصلہ رکھتے ہوں۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom